کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 161
’’ حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ایک دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: کہ ایک دفعہ دودھ اور دو دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا ہے میری پہلی بیوی کا موقف ہے کہ اس نے میری نئی بیوی کو ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ پلایا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ ایک دفعہ اور دو دفعہ دودھ پی لینا حرمت کو ثابت نہیں کرتا۔‘‘
۳۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ : کَانَ فِیمَا نَزَلَ مِن الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ یُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔وَہُنَّ فِیمَا یُقْرَأُ مِن الْقُرْآنِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُد [1]
’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا فرماتی ہیں کہ پہلے قرآن مجید میں دس رضعات سے حرمت ثابت ہونے کا حکم نازل ہوا تھا ۔ پھر یہ حکم منسوخ ہو کر پانچ رضعات سے حرمت ثابت ہونے کا حکم نازل ہوا۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(( وَقَدْ اسْتَدَلَّ بِأَحَادِیثِ الْبَابِ مَنْ قَالَ: إنَّہُ لَا یَقْتَضِی التَّحْرِیمَ مِنْ الرَّضَاعِ إلَّا خَمْسُ رَضعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ، وَقَدْ تَقَدَّمَ تَحْقِیقُ الرَّضْعَۃِ، وَإِلَی ذَلِکَ ذَہَبَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَعَائِشَۃُ وَعَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الزُّبَیْرِ وَعَطَاء ٌ وَطَاوُسٌ …الخ ۔))
’’ان احادیث ِ صحیحہ سے استدلال کیا ہے ان اہل علم نے جو پانچ دفعہ سے کم دودھ پینے سے حرمت کے قائل نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کے علاوہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، امام عطاء، طاؤس، سعید بن جبیر، عروہ بن زبیر، لیث بن سعد، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، ابن حزم، و جماعۃ من اھل العلم رحمۃ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے۔ تاہم جمہور کے نزدیک قلیل و کثیر رضاعت سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔‘‘
مگر ان کا استدلال نصوص مطلقہ سے ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا وغیرہ یعنی گروہ کا استدلال نصوص مقیّدہ بِخَمْسِ رَضعَات سے ہے اور اصول کا قاعدہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کرنا ضروری اور مسلمہ قانون ہے۔ لہٰذا حضرت عائشہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک راجح ہے۔
شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
[1] نیل الاوطار،ج:۶، ص:۳۴۸، وسبل السلام، صحیح مسلم،بَابُ التَّحْرِیمِ بِخَمْسِ رَضَعَاتٍ،رقم: ۱۴۵۲