کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 118
یعنی ’’جمہور نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ زنا کے ذریعہ حرمت ثابت ہو۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ شرع میں نکاح کا اطلاق اس عورت پر ہوتا ہے جس سے عقد کیا گیا ہو۔ خالی وطی کا نام نکاح نہیں۔اسی طرح زنا میں نہ صداق ہے۔ نہ عدت اور نہ ہی میراث ہے۔‘‘
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ زنا کے ذریعہ حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
موضوع ہذا پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ موقرجریدہ’’اہل حدیث ‘‘ میں دو قسطوں میں طبع شدہ ہے ۔اس کی طرف مراجعت بھی مفید ہے۔
آدمی کا اپنی ساس سے زنا کرنے سے بیوی حرام ہو جائے گی؟
سوال :کیا کہتی ہے شریعت محمدی علیہ السلام الف الف مرۃ بابت ایں مسئلہ کہ ایک مسلمان مرد اپنی بیوی کی و الدہ(حقیقی) سے بدکاری(زنا) کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔اس کا نکاح اپنی بیوی سے باقی ہے یا ٹوٹ گیا ہے؟
اگر نکاح ٹوٹ گیا ہے تو اس واقعہ کے بعد ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہے؟ کیا ساس محرمات میں شامل ہے؟ محرمات سے بدکاری کرنے والے کی اسلام میں کیا سزا ہے ؟ کیا ایسے مرد اور عورت کو رجم کیا جائے گا؟ یا کوڑے مارے جائیں گے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں بدلائل صریحہ جواب سے نوازیں۔ رب ذوالمنن ہم سب کا حامی ناصر ہو۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ (قاضی محمد رمضان صدیقی،منڈی بہاؤ الدین) (۱۶ دسمبر۱۹۹۴ء)
جواب : ساس سے حرام کاری کے مرتکب پر بیوی حرام نہیں ہوتی حدیث میں ہے:
(( لَا یُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ۔)) [1]
’’یعنی حرام کے ارتکاب سے حلال شے حرام نہیں ہوتی۔‘‘ [2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جمہور کا مسلک یہی نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:
(( وَحُجَّتُہُمْ أَنَّ النِّکَاحَ فِی الشَّرْعِ إِنَّمَا یُطْلَقُ عَلَی الْمَعْقُودِ عَلَیْہَا لَا عَلَی مُجَرَّدِ الْوَطْئِ وَأَیْضًا فَالزِّنَا لَا صَدَاقَ فِیہِ وَلَا عِدَّۃَ وَلَا مِیرَاثَ قَالَ ابن عَبْدِ الْبَرِّ وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْفَتْوَی مِنَ الْأَمْصَارِ عَلَی أَنَّہُ لَا یَحْرُمُ عَلَی الزَّانِی تَزَوُّجُ مَنْ زَنَی بِہَا فَنِکَاحُ أُمِّہَا
[1] سنن الدارقطنی،بَابُ الْمَہْرِ ،رقم:۳۶۷۸،سنن ابن ماجہ،بَابُ لَا یُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ،رقم:۲۰۱۵
[2] فتح الباری:۹/۱۵۶