کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 106
کہ جب کوئی دیندار، بااخلاق شخص رشتہ کی خاطر تمہارے پاس آئے تو اپنی متعلقہ عورت کا نکاح اس سے کردو، انکار کی صورت میں یہ زمین میں فتنہ و فساد کا باعث بنے گا۔
بایں وجہ آپ نے بہن کا ولی قرار پا کر جو ایک موحد اور متبع سنت آدمی سے اس کانکاح کردیا ہے۔ تو یہ بالکل درست فعل ہے۔ اور منعقد نکاح بلا تردّد صحیح ہے۔
باپ کی بجائے بیٹے ولی بن سکتے ہیں؟
سوال : کیا کسی صورت میں بیٹے ولی بن سکتے ہیں۔ یا نہیں؟ یا ولایت والد کی عدم موجودگی میں صرف حواشی یا حاکم ِ وقت کی طرف ہی منتقل ہوگی؟ ولایت کی ترتیب قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل لکھیں۔
(سائل محمد شفیع شام کوٹ نو ضلع قصور) (۷ اگست ۱۹۹۸ء)
جواب :ولایت کے باے میں امام شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الاوطار میں فرماتے ہیں:
(( وَالْمُرَادُ بِالْوَلِیِّ ہُوَ الْأَقْرَبُ مِن الْعَصَبَۃِ مِنْ النَّسَبِ ثُمَّ مِنْ السَّبَبِ ثُمَّ مِنْ عَصَبَتِہِ، وَلَیْسَ لِذَوِی السِّہَامِ وَلَا لِذَوِی الْأَرْحَامِ وِلَایَۃٌ، وَہَذَا مَذْہَبُ الْجُمْہُورِ۔))[1]
’’ولایت کا استحقاق قریب ترین عصبہ نسبی کو ہے۔ پھر سببی پھر اس کے عصبہ ، ذوی الفروض اور ذوی الارحام ولایت کے حق دار نہیں۔ جمہور اہل علم کا مسلک یہی ہے۔‘‘
ترتیبِ ولایت میں اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے۔ قریب ترین ترتیب یوں معلوم ہوتی ہے جس کو مختصر الخرقی میں اختیار کیا گیاہے۔ باپ دادا کی جہت اوپر تک ، پھر اس کا حقیقی اور علاتی بھائی پھر ان کی اولاد نیچے تک ، پھر چچے کی جہت نیچے تک، پھر باپ کے چچا کی جہت ، پھر غلام کو آزاد کرنے والا پھر اس کے قریب ترین عصبہ ۔
پھر ولایت کا اختیار سلطان کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: المغنی (۷/۳۴۶ تا ۳۵۲)
اس سے معلوم ہوا ولایت کی ترتیب میں دوسرا نمبر جہت بُنُوّت (بیٹا پوتا) کو حاصل ہے۔
عورت کے ننھال ولی بن سکتے ہیں؟
سوال : کیا عورت کی ماں یا اس کے ننھال ولی بن سکتے ہیں؟ یا ددھیال اور اس کا والد وغیرہ ہی ولی ہو سکتے ہیں؟ (سید شہزاد عالم بخاری)(۹ فروری ۲۰۰۱ء)
جواب : ولی صرف’’عصبہ‘‘ بن سکتے ہیں عورت کا اس میں کوئی حق نہیں۔ واضح ہو کہ عصبہ نسبی کا باپ کی طرف کے
[1] نیل الاوطار: ۶/۱۲۸