کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 105
(( إِذَا کَانَ وَلِیُّ الْمَرْأَۃِ مُضَارًّا فَوَلَّتْ رَجُلًا فَأَنْکَحَہَا فَنِکَاحُہُ جَائِرٌ۔))[1]
’’ جب عورت کا ولی نقصان دینے والا ہو اور وہ کسی دوسرے کو ولی مقرر کرکے نکاح کرلے تو جائز ہے۔‘‘[2]
موجودہ صورت میں ننھیال کی طرف سے کسی صالح آدمی کو ولی بنا کر بچیوں کا نکاح ہو سکتا ہے۔
بالغ بیٹیوں کے بروقت نکاح اور مناسب رشتے میں سستی کرنے والے والد کی ولایت کا حکم:
سوال : ایک شخص سے اس کی بالغہ بیٹی کا رشتہ کئی افراد نے باری باری طلب کیا مگر وہ شخص انکاری ہے۔ گویا وہ اس جوان بیٹی کا رشتہ دینے کو تیار ہی نہیں۔ کیا وہ لڑکی بذریعہ عدالت بلا اجازتِ والد نکاح کروا سکتی ہے ؟
(سائل) (۵/ستمبر۲۰۰۳ء)
جواب : لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کا خیر خواہ ہونا ضروری ہے ، یعنی وہ دینی ، معاشرتی ، عقلی اور واقعاتی اعتبار سے بہتر رشتے کا انتخاب کرنے والا ہو۔ اگر وہ اس طرح خیر خواہ نہ ہو تو اس صورت میں لڑکی کسی نیک صالح آدمی کو( جس میں عدالت کا جج بھی آسکتا ہے ) ولی بنا کر نکاح کر سکتی ہے ، مذکورہ صورت میں اس امر کی اجازت ہے۔
کیا والد کی بجائے بھائی ولی بن سکتا ہے؟
سوال :میری ایک بہن مطلَّقہ ہے جس کے لیے ڈیڑھ سال تک گھر میں بیٹھنے کے بعد ایک صوم و صلاۃ کا پابند لڑکا چُنا گیا ۔ مسلکاً اہل حدیث لیکن تنخواہ صرف ۵۰۰۰ (پانچ ہزار) روپے تھی۔ والد محترم کا کہنا ہے ، پانچ ہزار تنخواہ معمولی ہے۔ اتنی تنخواہ پر میں رشتہ نہیں دے سکتا۔ گھر کا سب خرچہ بھائی ہی اٹھاتے ہیں۔ والد محترم کافی عرصے سے فارغ ہیں۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ اہل حدیث نیک پرہیزگار،برسرِ روزگار لڑکا ملنا مشکل ہے۔ جو ملا ہے اسے بغیر شرعی عذر کے ردّ نہ کریں۔ لیکن انھوں نے کہا میں جب انکار کردوں تو بس انکار ہی سمجھو۔ ہم نے علمائے کرام سے مشورہ کے بعد نکاح کردیا۔ اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ والد کی موجودگی میں ایسی صورت میں جب سب بہن بھائی، والدہ، عزیز و اقارب رشتے کو ٹھیک کہتے تھے۔ کیا بڑا بھائی ولی بن سکتا ہے؟ اور کیا یہ نکاح صحیح ہے؟ (ایک سائل) (۳۱ مئی ۱۹۹۶ء)
جواب :محترم آپ کے والد صاحب اگر ضد برائے ضد کے عادی ہیں اور مطمح ِ نظر محض زرِدنیا ہے۔ا ور اولاد کی خیر خواہی ان کے پیش نظر نہیں تو پھر ان کی ولایت کا بھی اعتبار نہیں۔ کیونکہ ولی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ خیر خواہ ہو۔ خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ اختیارِ رشتہ میں دینداری کو دنیاوی مفادات پر مقدم سمجھا جائے۔ بعض روایات میں ہے
[1] سنن الدارقطنی، بَابُ الْمَھْرِ،رقم:۳۸۸۴
[2] فتاویٰ اہلحدیث:۳/۱۶۷