کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 97
(فَقَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ وَ سُورَۃً، فَجَہَرَ حَتّٰی سَمِعنَا) [1] یعنی ’’ابن عباس رضی اللہ عنھما نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھی۔ پس اسے جہری پڑھا، حتی کہ ہم نے سنا۔‘‘ اور صاحب ’’عون المعبود‘‘ فرماتے ہیں: ( وَھٰذِہِ الأحَادِیثُ فِیہَا دَلَالَۃٌ وَاضِحَۃٌ عَلٰی مَشرُوعِیَّۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ فِی صَلَاۃِ الجَنَازَۃِ۔ وَ فِیہَا دَلَالَۃٌ أَیضًا عَلٰی جَوَازِ قِرَائَ ۃِ سُورَۃٍ مَعَ الفَاتِحَۃِ فِی صَلَاۃِ الجَنَازَۃِ) [2] یعنی ان احادیث میں واضح طور پر دلالت ہے کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنی مشروع ہے اور ان میں یہ بھی ہے کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملانی بھی جائز ہے۔ نیز امام ابن حزم ’’المحلّٰی‘‘ میں فرماتے ہیں: ( صَلّٰی المِسورُ بنُ مَخرَمَۃَ ، فَقَرَأَ فِی التَّکبِیرَۃِ الأَولٰی بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ ، وَسُورَۃً قَصِیرَۃً ، وَ رَفَعَ بِھِمَا صَوتَہٗ) یعنی مسور بن مخرمہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پہلی تکبیر کے بعد میں فاتحہ اور چھوٹی سی سورت پڑھی، اور ان دونوں کو بلند آواز سے پڑھا۔ (3)) پہلے گزر چکا ہے کہ فاتحہ اور سورت کو بآواز بلند پڑھا گیا اور جہاں تک دیگر دعاؤں کا تعلق ہے۔ سو اس بارے میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا: (فَحَفِظتُ مِن دُعَائِہٖ ، وَ ہُوَ یَقُولُ: اَللّٰہُمَّ اغفِرلَہٗ وَ ارحَمہٗ…) الخ [3] ”پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یاد کیا،کہ آپ فرما رہے تھے: اَللّٰہُمَّ اغفِرلَہٗ وَارحَمہُ …الخ ظاہر ہے کوئی شے دوسرے سے تب ہی یاد ہو سکتی ہے جب اسے بلند آواز سے پڑھا جائے اور لفظ ’’یَقُولُ‘‘ بھی اس بات کا متقاضی ہے، کیونکہ اس کا اطلاقِ عام بلا قرینہ صارفہ بالجھر پر ہوتا ہے (اس کے عام حکم سے پھیرنے والی کوئی دلیل موجود نہ ہو، تو پھر بلند آواز سے پڑھنا مراد ہوتا ہے)، نیز دیگر بعض روایات میں لفظ’’فَھِمتُ‘‘ اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ فہم کی بناء حفظ پر ہے۔ ”اَلمُنتَقٰی‘‘ میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں لفظ سَمِعتُ النَّبِّیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلمہے جب کہ واثلہ بن
[1] ۔ المنتقٰی لابن الجارود،کِتَابُ الجَنَائِزِ ،رقم:537 [2] ۔ عون المعبود: 191/3 [3] ۔ صحیح مسلم،بَابُ الدُّعَاء ِ لِلْمَیِّتِ فِی الصَّلَاۃِ،رقم:963