کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 84
نرمی اور آہستگی سے غسل دیں اور میت سے کوئی مکروہ اور معیوب بات معلوم ہو تو اس کو چھپائیں اورکسی سے ظاہر نہ کریں اور جس مقام میں غسل دیں وہاں پردہ کرلیں۔ حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ [1] نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مُردوں کی خوبیوں کو بیان کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے باز رہو۔[2] علماء لکھتے ہیں کہ غسل دینے والا جب میت کی کوئی اچھی بات دیکھے، مثلاً اس کے چہرہ کا چمکنا اور روشن ہونا یا اس سے خوشبو کا معلوم ہونا تو بہتر ہے کہ اس کو لوگوں سے بیان کرے اور اگر کوئی بات مکروہ دیکھے، مثلاً اس کے چہرے یا بدن کا سیاہ ہو جانا یا اس کی صورت کا بدل جانا یا اس سے بدبو معلوم ہونا تو اس کو لوگوں سے ظاہر کرنا جائز نہیں۔ فقہائے حنفیہ لکھتے ہیں کہ میت کو غسل دینے کے واسطے تخت یا چار پارئی پر پہلے بائیں کروٹ لٹائیں تاکہ غسل دینے میں داہنی طرف سے شروع ہو۔ پھر غسل دیں، یہاں تک کہ اوپر سے نیچے تک تمام بدن کا غسل ہو جائے ۔ یہ ایک غسل ہوا پھر داہنی کروٹ پر لٹا کر اسی طرح غسل دیں، یہ دوسرا غسل ہوا۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح غسل دیں یہ تیسرا غسل ہوا۔ فوائد متفرقہ: فائدہ: جب میت کو غسل دینے کے واسطے تخت یا چار پائی پر فرمائیں تو کس رُخ پر لٹائیں؟ اس بارے میں کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری، علماء کی آرائیں اس بارے میں مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں جیسے قبر میں لٹایا جاتا ہے، اسی طرح غسل دینے کے وقت بھی لٹانا چاہیے اور بعض کہتے ہیں اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی طرف ہوں۔ فقیہ سرخسی حنفی کہتے ہیں کہ اصح یہ ہے کہ جس رخ لٹانے میں آسانی ہو اسی رُخ لٹائیں۔ فائدہ: حنفی مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ جس تخت پر میت کو غسل دینا ہو اس کو پہلے کسی خوشبو دار چیز مثلاً اگربتی یا لوبان سے تین بار یا پانچ بار دھونی دے لیں۔‘‘ لیکن اس دھونی کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا ہے۔ ہاں کفن کے دھونی دینے کا ثبوت حدیث سے ہے۔ جیسا کہ تم کو آگے معلوم ہو گا۔ فائدہ: اوپر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا چاہیے، رہی یہ بات کہ بیری کے پتوں کو کس طریق سے استعمال کرنا چاہیے سو اس کے متعلق حدیث سے کوئی تشریح نہیں ملتی ہے۔
[1] ۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم،بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ،رقم:2580 [2] ۔سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی النَّہْیِ عَنْ سَبِّ الْمَوْتَی ،رقم: 4900، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی دَفْنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیْثُ قُبِضَ،رقم:1019