کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 72
برصغیرپاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات:
پاک و ہند میں جب عمل بالحدیث کا جذبہ عام ہوا توعوام بھی بکثرت علمائے اہل حدیث کی طرف رجوع کرنے لگے اور علماء نے بھی اپنی مسؤلیت اور ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اس فرض کو خوب ادا کیا۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ اس وقت ان فتاویٰ کو سنبھال کر رکھنے کا خصوصی اہتمام نہیں کیا گیا۔ اس لیے ان کا ایک بہت بڑا حصہ محفوظ نہ رہ سکا۔ جیسے شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی بابت ان کے ایک فاضل شاگرد مولانا سید عبدالحئی(سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ) کی قابل قدر کتاب’’نزھۃ الخواطر‘‘ میں ہے:
(امَّا الْفَتَاوَی الْمُتَفَرِّقةُ الَّتِیْ شَاعَتْ فِی الْبِلَادِ فَلَا تَکَادُ أَنْ تُحْصَرَ وَظَنِّیْ أَنَّها لَوْ جُمِعَتْ لَبَلَغَتْ إِلٰی مُجَلَّدَاتٍ ضِخَام)
”انکے صرف وہ متفرق فتاویٰ ہی جو مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے تھے، حیطۂ شمار سے باہر ہیں۔ میرے خیال کے مطابق اگر وہ جمع کیے جاتے تو کئی ضخیم جلدیں بنتیں۔‘‘
میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد یہ احساس ہوا، تو پھر اس کی طرف کچھ توجہ دی گئی، اور انھیں جمع اور مرتب کرکے فتاویٰ نذیریہ کے نام سے دو جلدوں میں دہلی سے شائع کیا گیا، جو بعد میں حضرت الاستاذ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی کے نتیجے میں اہل حدیث اکادمی لاہور کی طرف سے دوبارہ تین جلدوں میں شائع ہوا۔ لیکن یہ شائع شدہ فتوے بہت قلیل حصہ ہیں، بہ نسبت ان فتووں کے جو انھوں نے تحریر فرمائے۔ اسی طرح دوسرے علمائے اہل حدیث کی علمی کاوشوں اور فتووں کا حشر ہوا، ان کا ریکارڈ رکھا گیا نہ ان کی وفات کے بعد انھیں جمع کرنے کی کوئی کوشش کی گئی، نتیجتاً بہت سی علمی و قیمتی تحریرات و دستاویزات دست برد زمانہ کی نذر ہو گئیں۔
ہمارے (ماضی قریب) کے اکابر علماء میں بھی اگرچہ متعدد علماء فتویٰ نویسی کے میدان میں نمایاں رہے، لیکن ان میں دو شخصیتیں نہایت ممتاز اور سرفہرست ہیں: ایک صاحب مرعاۃ المفاتیح مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری (متوفی1990ء) اور دوسرے مجتہد العصر حافظ عبداللہ محدث روپڑی(متوفی 20 اگست 1964ء); تقسیم ملک کے بعد اوّل الذکر بھارت ہی میں مقیم رہے، جب کہ ثانی الذکر روپڑ(انبالہ ضلع، مشرقی پنجاب) سے لاہور آگئے۔ یہ دونوں ہی یگانۂ عصر شخصیتیں تھیں، علم وعمل کے بحر بیکراں ، مجتہدانہ ذوق و صلاحیت سے بہرہ ور اور تحقیق و تدقیق کے ذروۂ علیا پر فائز۔ بنا بریں دونوں ہی عوام و خواص کے مرجع اور تحقیق و افتاء کی مسند کے صدر نشین رہے۔ حضرت محدث روپڑی کے فتاویٰ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردِ رشید مولانا ابوالسلام محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ (سرگودھا) نے مرتب کرکے ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘ کے نام سے شائع کردیے تھے، جس سے اہل علم و تحقیق خوب استفادہ کرتے ہیں۔ اور اب محدث مبارکپوری