کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 71
(فِقْة الْبُخَارِیِّ فِی تَرَاجُمة) ’’ امام بخاری کی فقاہت ان کے تراجم میں ہے۔‘‘ تاریخ ِ اسلام کے ایسے بے مثال فقیہ کو محض عطار کہنا، ایک ایسی شوخ چشمانہ جسارت ہے جس کا حوصلہ ایسے ہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے دلوں میں حدیث کی عظمت کے بجائے فقیہانہ قیل و قال کا احترام زیادہ ہے۔( سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ) بہرحال بات ہو رہی تھی محدثین کرام کے جمع و تطبیق کے اصولوں کی۔ اگر ان اصولوں کو ان مسائل میں بھی اختیار کر لیا جائے جو فریقین کے درمیان ما بہ النزاع ہیں، تو بہت سے نزاعات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر محدثین کی مذکورہ تینوں امتیازی خصوصیات ہی کو اپنا لیا جائے، جن کی وضاحت کی گئی ہے تو بیشتر اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے۔ اختلافات کی بنیاد، حدیث کے بارے میں نقطۂ نظر کا فرق ہی ہے۔ جب تک نقطۂ نظر کا یہ فرق ختم نہیں ہو گا، اور حدیث کی عظمت کو اس طرح تسلیم نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ اس کا حق ہے، اور احادیث ِ صحیحہ کو کسی بھی عنوان، حیلے یا وضعی اصولوں سے ردّ کرنے کا طریقہ نہیں چھوڑ ا جائے گا، جن کی بابت پورے یقین و اذعان سے ہمارا دعویٰ ہے کہ اِمام ابوحنیفہ کا ان اصولوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس وقت تک اختلافات کا خاتمہ تو کجا، ان کی شدّت کو کم بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اہل حدیث کا طرزِ عمل اور عند اللہ باز پرس کا احساس:
جہاں تک اہل حدیث کا تعلق ہے، الحمد للہ وہ اللہ عزوجل کو گواہ بنا کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ حدیث کی صحت و ضعف کا فیصلہ کرنے میں کسی حزبی تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ نہیں کرتے، اپنے ذہنی تحفظات کو سامنے نہیں رکھتے اور اپنے خاندان اور ماحول کے اثرات کو اس پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے، بلکہ پوری امانت و دیانت سے نقد وتحقیق کے محدثانہ اصول ہی کی روشنی میں احادیث کو جانچتے اور پرکھتے ہیں اور پھر انہی مسائل کا اثبات یا ان کی أرجحیت کا فیصلہ کرتے ہیں جو احادیث ِ صحیحہ کا اقتضاء ہے۔ احادیث کو توڑ مروڑ کر ان کی دُوراز کار تاویل کرنا، یا صحیح حدیث کوضعیف اور ضعیف حدیث کو صحیح ثابت کرنا، یا بلادلیل کسی حدیث کو ناسخ یا منسوخ قرار دینا، یہ سب طریقے اہل حدیث کے نزدیک دجل و تلبیس اور کتمان ِ حق کی ذیل میں آتے ہیں۔ وہ ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور دوسروں کو بھی پورے اعتماد اوراذعان سے یہ یقینا دلاتے ہیں کہ ان کا دامن ان تمام چابک دستیوں سے یکسر پاک ہے۔ محدثانہ اصول کے انطباق میں ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ معلومات میں کمی یا ان تک عدم رسائی کی وجہ سے غلطی ہو سکتی ہے، فہم و استنباط میں ان سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن ان کوتاہیوں میں الحمد للہ کسی قسم کی بددیانتی کا عنصر شامل نہیں ہے، مسلکی پس منظر کا دخل نہیں ہے، کسی اور جذبے اور مفاد کی اس میں کارفرمائی نہیں ہے۔ وَاللّٰه عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْل۔