کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 70
(مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمْ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا) (الکھف:18/5) یا محدثین کرام کی اس طرح توہین کرتے ہیں کہ محدثین تو محض عطار(دوا فروش) تھے ، جس طرح ایک عطار اپنی دکان پر ہر طرح کی جڑی بوٹیاں رکھتا ہے، لیکن وہ ان کے خواص اور تاثیرات سے لاعلم ہوتا ہے۔ ان کے خواص و تاثیرات سے ایک طبیب حاذق ہی واقف ہوتا ہے۔ مجتہدین یا فقہاء کی حیثیت بھی طبیب حاذق کی طرح ہے۔ ایک فقیہ ہی نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ محدثین نے اپنی دکان (احادیث کے مجموعوں) میں جو( نعوذ باللہ) ہر طرح کی جڑی بوٹیاں(احادیث) جمع کرلی ہیں۔ ان میں سے کون سی حدیث کو لینا ہے اور کس کو ترک کرنا ہے؟ یعنی تطبیق و ترجیح یا اخذ و ترک کا فیصلہ نقد و تحقیق حدیث کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں نہیں، بلکہ فقیہ نے اپنی فقاہت کی روشنی میں کرنا ہے۔ اور یہ فقاہت ایک مخصوص عینک کا نام ہے۔ ہری عینک والے کو ہر چیز ہری، کالی عینک والے کو کالی اور لال عینک والے کو لال نظر آتی ہے۔ چنانچہ حنفی فقیہہ کا استدلال کچھ ہوتا ہے، شافعی فقیہہ کا کچھ، و ھلم جرا اس لیے کہ ان سب کی عینکیں الگ الگ رنگ کی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام کی تعبیر شد پریشاں خواب من ز کثرت تعبیر ہا کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ محدثین کی صاف شفاف، بے غبار اور بے آمیز عینک کوئی استعمال نہیں کرتا، جس میں ہر چیز اپنی صحیح اور اصلی شکل میں نظر آتی ہے۔ طبیب حاذق کی یہ حذاقت یا فقیہ کی یہ فقاہت ہی یا الگ الگ رنگ کی یہ عینکیں ہی افتراقِ امت کے المیے کا سب سے بڑا سبب ہے، اس لیے جب تک محدثین کے منہج و مسلک کو اختیار نہیں کیا جائے گا، اس افتراق کا سدِّ باب ممکن نہیں ہے۔ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم کو فقاہت سے عاری محض ایک عطار کہنا، اِسی طرح خلافِ واقعہ اور ان کی توہین ہے، جیسے نورالانوار اور اصول الشاشی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ عنھما جیسے صحابہ کو غیر فقیہ قرار دینا خلافِ واقعہ اور ان کی توہین ہے۔ا ور یہ دونوں ہی باتیں انکارِ حدیث کے چور دروازے ہیں۔ مذکورہ صحابہ کو غیر فقیہ قرار دینے سے مقصود بھی ان کی بیان کردہ روایات سے جان چھڑانا اور اپنے قیاس و رائے کو ترجیح دینا ہے۔اسی طرح محدثین کو عطار کہنے سے مقصود بھی ان کی جمع کردہ حدیثوں کے مقابلے میں فقہاء کی موشگافیوں کو اختیار کرنا ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ صحابی غیر فقیہ تھے، نہ محدثین کرام ہی فقاہت سے عاری تھے۔ان کی فقاہت تو ابواب بندی(تراجم) ہی سے واضح ہو جاتی ہے۔ بالخصوص امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت تو ان کے ایک ایک ترجمۃ الباب سے نمایاں ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے،