کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 68
(إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ)(المائدۃ:5/6) ”اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو ، تو وضو کرو۔‘‘ لیکن بریلوی حضرات إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی … کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’جب تم نماز پڑھ چکو تو…‘‘ اور اِس طرح ترجمے میں بد دیانتی کا ارتکاب کرکے جنازے کے بعد دعا مانگنے کے اپنے غیر مسنون عمل کا جواز ثابت کرتے ہیں، حالانکہ اگر یہ ترجمہ صحیح ہے تو پھر ان کو وضوء بھی نماز کھڑے ہونے کے بعد ہی کرنا چاہیے، نہ کہ نماز سے پہلے ۔جیسا کہ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ) (المائدۃ:5/6) کا ترجمہ بریلوی استدلال کے مطابق کرنے کا اقتضاء ہے۔ چوتھی مثال: یہی حال ان احادیث کی صحت و ضعف کے معاملے میں ہے جو اختلافی مسائل میں مدارِ بحث بنتی ہیں۔ ان میں نہایت بے خوفی کے ساتھ امانت و دیانت کا خون کرکے ثقہ راویوں کو ضعیف اور ضعیف راویوں کو ثقہ ثابت کرنے پر زور صرف کیا جاتا ہے، جس کی تفصیل (التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الأباطیل)(عربی) تالیف شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ یمانی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس میں ایک لطیفہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی اپنی کسی من پسند روایت میں ہوتا ہے ، تو اسے اس وقت ثقہ باور کرایا جاتا ہے اور وہی راوی جب اس روایت میں آتا ہے جس سے دوسرا فریق استدلال کرتا ہے، تو وہ ضعیف قرار پا جاتا ہے۔ ایک اور لطیفہ یہ ہوتا ہے ، کہ ایک حدیث میں دو تین باتیں ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بات تو قبول کر لی جاتی ہے کہ اس سے ان کے کسی فقہی مسئلے کا اثبات ہوتا ہے اور دوسری باتیں ردّ کر دی جاتی ہیں کیونکہ وہ فریق مخالف کے موافق ہوتی ہیں، حالانکہ حدیث ایک ہے، سند ایک ہے، اگر وہ حدیث صحیح ہے تو اس میں بیان کردہ ساری ہی باتیں صحیح ہیں، ان میں سے کسی بات کو مان لینا اور بعض کو نہ ماننا ، اسے کون معقول طرزِ عمل قرار دے سکتا ہے ؟ اسی طرح اگر وہ ضعیف ہے، تب بھی معاملہ ایسا ہی ہے، اس کی ساری ہی باتیں ناقابل تسلیم ہونی چاہئیں اس کا کوئی ایک جز قابل استدلال نہیں ہو سکتا۔ یہ لطائف ہمارے فقہی جدل و مناظرہ میں عام ہیں۔ ظاہر بات ہے ، امانت و دیانت کی موجودگی میں اس کا امکان ہے، نہ جواز ہی ہے۔ 3۔ محدثین کا تیسرا وصف: محدثین کے منج کی تیسری نمایاں خوبی جمع و تطبیق کا اہتمام ہے۔ بعض روایات میں جو ظاہری تعارض نظر آتا ہے، اس کے حل کے لیے محدثین حسب ذیل طریقے اختیار کرتے ہیں: 1۔ سند کے اعتبار سے اگر ایک روایت صحیح ہے اور دوسری ضعیف، تو صحیح السند روایت کو وہ قبول کر لیتے اور ضعیف کو نظر