کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 67
مردوں سے مختلف ہے؟)‘‘ دوسری مثال: علمائے احناف کے چوٹی کے عالم مولانا احمد علی سہارنپوری کی ہے جن کا حاشیۂ صحیح بخاری متداول ہے۔ انھوں نے حدیث ( اُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَلَا صَلَاۃَ اِلَّا الْمَکْتُوْبَة) جسے امام بخاری نے ترجمۃ الباب (الصَّلَاۃ، باب:38) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے حاشیے میں سنن بیہقی کے حوالے سے یہی حدیث (اذا اقیمت الصلاۃ…الحدیث) نقل کی ہے، اس میں اِلَّا رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ کے الفاظ کا اضافہ ہے یعنی ’’فرض نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد کوئی نماز نہیں، البتہ فجر کی دو رکعتیں(سنتیں) پڑھنا جائز ہے۔‘‘ حالانکہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اضافے کی بابت صراحت کی ہے کہ ’’یہ اضافہ(البتہ فجر کی دو سنتیں پڑھنا جائز ہے) بے اصل ہے‘‘وهذه الزيادة لا أصل لها ۔ اور لکھتے ہیں کہ اس اضافے کو بیان کرنے والے حجاج بن نصیر اور عباد بن کثیر ہیں اور یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔ اس کے باوجود ایک صحیح حدیث کو ردّ کرنے اور اپنے خلافِ حدیث رواج کو صحیح باور کرانے کے لیے صحیح بخاری کے فاضل محشی نے اس بے اصل اضافے کو حدیث رسول کہہ کر بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری:1/197،طبع نور محمد) انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ صحیح بخاری کا یہ حاشیہ آج سے تقریباً سوا سو سال قبل جب چھپ کر پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا تھا تو شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب کے ذریعے سے اس کوتاہی یا بدیانتی کی طرف توجہ دلائی تھی، لیکن اس کی اصلاح نہیں کی گئی۔ اور صحیح بخاری کے عربی حاشیے میں یہ بے اصل حدیث، حدیث رسول کے نام سے اب تک موجود ہے۔ میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا یہ مکتوب جو عربی میں ہے، کتاب’أعلام أھل العصر‘(تالیف مولانا شمس الحق ڈیانوی) میں موجود ہے۔ فإِلی اللّٰہ المشتکی ۔ غالباً اسی بے بنیاد روایت کی بنیاد پر عام مسجدوں میں فجر کی جماعت کے دوران میں لوگ بے دھڑک سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور حدیث ِ رسول(نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں) (صحیح مسلم) کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور ( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) (الأعراف:7/204)’’جب قرآن پڑھا جارہا ہو، تو تم کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔‘‘ کا ذرا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ اور علماء یہ منظر روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن فقہی جمود نے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہیں۔ تیسری مثال: بریلوی حضرات کے ہاں رواج ہے کہ نمازِ جنازہ کے فوراً بعد میت کے اِردگرد کھڑے ہو کر سب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، اِس کو وہ بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ دلیل کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: (إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوْا له الدُّعَائَ) ’’اس کاصحیح ترجمہ تو یہ ہے کہ جب تم میت کی نمازِ جنازہ پڑھنے لگو ، تو اخلاص کے ساتھ اس کے لیے (مغفرت کی) دعا کرو۔ جیسے قرآن مجید میں ہے: