کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 660
ہیں؟ (سائل ) (1جون2001ء) جواب۔ معلوم نہیں آپ نے چار اماموں کی تخصیص کیسے کردی؟ اہل اسلام میں صرف چار امام نہیں، سینکڑوں امام گزرے ہیں، دین کی خاطر جن سب کی کاوشیں اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں۔ جہاں تک تقلید کا تعلق ہے ، اس بارے میں عرض ہے کہ اہل علم نے ’’تقلید‘‘ کی تعریف یوں کی ہے کہ (اَخْذ قَوْلِ الْغَیْرِ بِغَیْرِ دَلِیْلٍ) یعنی دوسرے کی بات کو دلیل کے بغیر قبول کر لینا۔‘‘ اہل حدیث کا مسلک تقلیدی نہیں بلکہ وہ کتاب و سنت کے دلائل کے ساتھ مزین بات کو قبول کرتے ہیں چاہے کسی امام کے مسلک و مذہب کے مطابق ہو یا خلاف، اہل حدیث صرف امام شافعی کے نہیں بلکہ جملہ اہل اسلام کے تقابلی مسالک بیان کرتے ہیں،تاکہ دلائل کے ذریعے راجح بات واضح ہو سکے۔ اہمیت صرف اس بات کو دیتے ہیں جو کتاب و سنت کے مستند دلائل سے ثابت ہو۔ مثلاً امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ’’تیمم‘‘ عارضی طہارت ہے ہر نماز کے لیے علیحدہ علیحدہ تیمم کرنا ہو گا جب کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تیمم عارضی طہارت نہیں بلکہ وضوء کے قائم مقام ہے۔ اہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے ۔ اس بناء پر نہیں کہ یہ حنفیہ کا مسلک ہے بلکہ اس لیے کہ اس کی دلیل مستند، قوی اور مضبوط ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ (الصَّعيدُ الطَّيِّبُ وضوءُ) [1] ”پاکیزہ مٹی سے تیمم کرنا وضوء ہی ہے۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’صحیح بخاری‘‘ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ رہ گیا معاملہ تقلید کا تو ائمہ کرام نے خود اپنی تقلید سے روکا ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو میری دلیل نہیں پہچانتا اس کے لیے حرام ہے کہ میرے قول کے ساتھ فتویٰ دے۔ ملاحظہ ہو: الانتقاء لابن عبدالبر اور ’’اعلام الموقعین‘‘ ابن قیم وغیرہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو جائے اس کے لیے حلال نہیں کہ کسی کے قول کی بناء پر اس کو چھوڑ دے۔‘‘ (الايقاض فلاني) نیز فرمایا : ’’صحیح حدیث میرا مسلک ہے۔‘‘ (المجموع النووي رحمة اللّٰه عليه )
[1] ۔ احکام القرآن: 14/275