کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 638
جواب۔ کتاب و سنت سے یہ بات بداہۃً معلوم ہے کہ دلوں کے بھیدوں سے صرف اللہ عزوجل ہی واقف ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ وہ فرشتے ہوں یا انس و جن وغیرہ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ o اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ } (الملک:14)
”اور تم ( لوگ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر وہ دل کے بھیدوں تک سے واقف ہے ، بھلا جس نے پیدا کیا ، وہ بے خبر ہے ؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘
اور صورتِ مرقومہ میں فرشتوں کی طرف جس علم کی نسبت کی گئی ۔ یہ وہ علم ہے جو تجدد اور استمرار کی شکل میں معرضِ وجود میں آتا ہے۔ آیت کریمہ میں مضارع کے صیغوں کا استعمال بھی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ اس لیے کہ صیغہ مضارع میں حال اور مستقبل کا زمانہ پایا جاتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:
(اِِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ o مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(ق:17،18)
”جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔‘‘
لیکن اس پر یہ اعتراض واد ہوتا ہے کہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے حکم ہوتا ہے کہ فرشتو! اسے تحریر میں مت لانا حتی کہ عمل کر گزرے ،اگریہ عمل کر لیتا ہے تو صرف ایک برائی لکھو۔ اور اگر اس نے میری رضا کی خاطر برائی کو ترک کردیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔[1]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے باطنی قلبی امور پر مطلع ہو جاتے ہیں۔
اس اشکال کا جواب یوں ہے کہ یہاں فرشتوں کا قلبی امر پر مطلع ہونا اللہ کی طرف سے آگاہی پانے کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ’’ابن ابی الدنیا‘‘ نے ابو عمران الجونی سے بیان کیا ہے کہ بارگاہِ ایزدی سے آواز آتی ہے فلاں کے لیے اتنا اتنا ثواب لکھ دو۔ فرشتہ عرض کرتا ہے۔ اے پروردگار! اس نے تویہ عمل کیا بھی نہیں۔ اللہ فرماتا ہے ، اس نے نیت تو کرلی ہے۔ اوربعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ برائی کی بدبو اور نیکی کی خوشبو کی وجہ سے فرشتوں کو معلوم ہوجاتا ہے۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ فرشتے میں علم کا ادراک پیدا کردیتا ہے، جس سے اس کو محسوس ہو جاتا ہے۔ بہرصورت وجہ کوئی بھی ہو، یہ بات مسلمہ ہے کہ دلوں کے راز صرف اللہ کے ہاں محفوظ ہیں ا ور وہی واقف ہے۔ اس کے سوا یہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔
{اِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْر} (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری،ج:11،ص:325)