کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 636
یَدَیْھَا وَ خلفھا فَتَقَطَّعَت عُرُوْقُھَا ثُمَّ جَائَ تْ تنحد الارض تبحر عروقھا مغبرۃ حَتّٰی وَقَفَتْ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ ’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ قَالَ الْاَعْرَابِیُّ مُرْھَا فَلْتَرْجِعْ اِلٰی مَنْبَتِھَا فَرَجَعَتْ فَدَلَّتْ عُرُوْقُھَا فَاسْتَوَتْ فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ اِئْذَنْ لِیْ اَنْ اَسْجُدَ لَکَ ( اَیْ بَعْدَ اَنْ اٰمَنَ کَمَا صَرَّحَ فِی رِوَایَۃٍ ) فَقَالَ لَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ اَمَرْتُ اَحَدًا اَنْ یَسْجُدَ لِاَحَدٍ لَاَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِھَا فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ فَأَذِنَ لِی اُقَبِّلَ یَدَیْکَ وَ رِجْلَیْکَ (رواہ البزار) (و اخرجہ العلامہ زینی دحلان المکی ،ص:303، ج:2)
وَ فِی السِّیْرَۃِ اَیْضًا وَ شَرْحِ الْمَوَاہِبِ فِی قِصَّۃِ وَفْدِ عَبْدِ الْقَیْسِ۔ اِنَّہُمْ دَخَلُوْا عَلَی النَّبِیِّ فَتَبَادَرُوْا یُقَبِّلُوْنَ یَدَہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ رِجْلَہُ …الخ(ص:150،ج:3) وَ فِی الدُّرِ الْمُخْتَارِ طَلَبُ مِنْ عَالِمٍ اَوْ زَاھِدٍ اَنْ یَدْفَعَ اِلَیْہِ قَدَمَہٗ وَ یُمَکِّنَہٗ مِنْ قَدَمِہٖ لِیُقَبِّلَہُ اَجَابَہٗ وَ قِیْلَ لَا یُرَخَّصُ…
وَ فِی رَدِّ اَلْمُخْتَار یَدْفَعُ اِلَیْہِ قَدْمَہٗ اَجَابَہٗ لِمَا اَخْرَجَہُ الْحَاکِمُ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فََقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرِنِیْ شَیْئًا اَزْدَادُ بِہٖ یَقِیْنًا فَقَالَ اِذْہَبْ اِلٰی تِلْکَ الشَّجَرَۃِ … فَادْعُہَا فَذَہَبَ اِلَیْہَا فَقَالَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہَ یَدْعُوْکَ فَجَائَ تْ حَتّٰی سَلَّمْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہَا ارْجِعِیْ فَرَجَعَتْ قَالَ ثُمَّ اَذِنَ لَہُ فَقَبَّلَ رَأْسَہُ وَرِجْلَیْہِ وَ قَالَ الْحَاکِمُ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ ۔ ( شامی،ص: 378،ج:5)
براہِ کرم ارشاد فرمائیں کہ ان کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ ساتھ میں اصل مسئلہ پر ممکن روشنی ڈال دیجیے گا۔
(بندہ محمد بشیر لکی شاہ صدر، ضلع دادو،سندھ)
جواب (1) اس بارے میں اصل امر ثابت صرف مصافحہ ہے بکثرت احادیث اس کے ثبوت و فضیلت میں وارد ہیں اور اسی پر صحابہ رضی اللہ عنھم کا عمل تھا۔ کسی صحیح حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ صحابہ کرام مصافحہ کے علاوہ تعظیماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یا آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ پاؤں چومتے ہوں۔
علامہ محمد منیر دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ، شرح ’’عمدۃ الاحکام‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
( لَمْ یَرِدْ فِی الصَّحِیحِ اَنَّ اَحَدًا مِنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یُقَبِّلُ یَدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا یُقَبِّلُ بَعْضُہُمْ یَدَ بَعْضٍ)(ص:43،ج:3)
(2) بعض روایات میں ہاتھ چومنے کے دو تین شاذ واقعے ملتے ہیں اگران کی روایتی حیثیت کچھ ہو بھی تو وہ غیر
[1] ۔ راقم کے خیال میں جانور کو بذریعہ انجکشن حمل ٹھہرانا علی الاطلاق جائز نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ صرف اس صورت میں جائز ہونا چاہیے جب کہ مادہ جانور کو کسی مرض کی وجہ سے معروف طریقے کے مطابق حمل نہ ٹھہرتا ہو۔اس لیے کہ جانور کو بغیر کسی وجہ کے اس کے ’’حقِّ اِستلذاذ‘‘ سے محروم کرنا شرعاً مناسب اور درست نہیں کیونکہ شریعت نے انسان پر انسانوں کے علاوہ جانوروں کے بھی کچھ حقوق مقرر کررکھے ہیں۔ جن کا اسے خیال رکھنا چاہیے۔(نعیم الحق نعیم)