کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 633
(اللّٰهُ مَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ، وَأَنَا عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، وَأَبُوئُ لَکَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی، فَإِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ )[1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے صبح کے وقت یقین سے یہ کلمات کہے اور اس روز وہ شام سے پہلے مرگیا۔ سووہ اہل جنت سے ہے اور جس نے شام کے وقت یقین سے یہ کلمات کہے اور اُسی رات وہ صبح سے پہلے مرگیا سو وہ اہل جنت سے ہے۔‘‘
محض اعمال پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ رب العزت کی بہشت رجاء اور خوف کے درمیان ہے۔ مسلسل عمل جدوجہد تادمِ مرگ جاری رہنی چاہیے۔
حدیث میں ہے کہ کوئی شخص صرف نیک عملوں کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ جب تک اللہ کی رحمت شامل ِ حال نہ ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
(بَابُ خَوْفِ المُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُہُ وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ ۔ وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ التَّیْمِیُّ: مَا عَرَضْتُ قَوْلِی عَلَی عَمَلِی إِلَّا خَشِیتُ أَنْ أَکُونَ مُکَذِّبًا وَقَالَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ : أَدْرَکْتُ ثَلاَثِینَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کُلُّہُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلَی نَفْسِہِ، مَا مِنْہُمْ أَحَدٌ یَقُولُ: إِنَّہُ عَلَی إِیمَانِ جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَیُذْکَرُ عَنِ الحَسَنِ مَا خَافَہُ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلاَ أَمِنَہُ إِلَّا مُنَافِقٌ)
یعنی مومن کا اس بات سے ڈرنا کہ عدمِ شعور میں کہیں اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔ ابراہیم تیمی نے کہا جب میں نے اپنے قول کو عمل پر پیش کیا تو مجھے خوف لاحق ہوا کہیں عمل سے اپنی بات کی خود ہی تو تکذیب نہیں کر رہا اور ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے میں نے تیس صحابہ کو پایا جو سب کے سب اپنی جانوں پر نفاق سے خوف زدہ تھے ان میں سے کوئی بھی یہ بات نہیں کہتا تھا کہ اس کا ایمان جبریل اور میکائیل فرشتوں جیسا ہے حضرت حسن سے بیان کیا جاتا ہے اللہ سے صرف مومن ڈرتا ہے اور منافق اپنے کو اس سے اَمن میں سمجھتا ہے۔ قرآن میں ہے:
(وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ } (الرحمن:46)
(فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ) (الاعراف:99)
بعض سلف فرمایا کرتے تھے کاش مجھے یقین ہو جائے کہ رب نے میری زندگی بھر کی صرف ایک نماز قبول کرلی ہے۔ اس لیے بے فکری کا کبھی نہ سوچیں۔ پیش آمدہ مسافت کے مراحل بڑے پر خطرہیں۔ان سے بچاؤکی سعی و تدبیر ہر