کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 630
یہ حدیث صحاح ستہ میں مذکورہ ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے کے ساتھ شغف میں قیامت تک بھلائی ہی بھلائی ہے۔ یہ حدیث بھی صحاح و سنن میں موجود ہے۔ امام طحاوی’’شرح معانی الآثار‘‘ میں لکھتے ہیں اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ ’’نادان ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کے حصول اور اس کے استعمال میں جو اجر اور فائدہ ہے وہ خچر میں نہیں۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے کے فوائد بہت ہیں۔ بہ نسبت خچر کے جو گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے نادان لوگ حاصل کرتے ہیں۔ گویا وہ ایسی چیز پر توجہ نہیں کرتے جس میں اجر ہے بلکہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جس میں اجر نہیں۔ ثالثاً: یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بنی ہاشم کے پاس گھوڑے بہت کم تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تاکہ خچر کے مقابلے میں گھوڑے کی نسل پر توجہ دی جائے اور اس طرح ان کی افزائش ہو۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں عبید اللہ بن عبد اللہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے(اہل بیت کے لیے) تین باتیں خاص کردی ہیں۔ اوّل یہ کہ ہم صدقہ نہ کھائیں۔ اچھی طرح وضوء کریں اور گھوڑے اور گدھے میں جفتی نہ کرائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میری عبد اللہ بن حسن سے ملاقات ہوئی۔ آپ بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے۔ میں نے ان سے یہ باتیں کیں۔ انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا بنی ہاشم چاہتے تھے کہ گھوڑے کی نسل بڑھے۔ عبداللہ بن حسن کی توجیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرانے کو حرام نہیں قرار دیا تھا۔ بلکہ گھوڑی کی قلت کی وجہ سے یہ بات کہی تھی پھر جب یہ علت دور ہو گئی تو اس سے کوئی چیز مانع نہ رہی۔ نیز یہ کہ اس عمل سے صرف بنی ہاشم کو روکا گیا ہے یعنی دوسروں کے لیے یہ عمل مباح ہے۔ ( فتاویٰ عظیم آبادی، ص:326 تا330) انجکشن کے ذریعے جانوروں کو حاملہ کرنا سوال۔ جانوروں کو انجکشن کے ذریعے حاملہ کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟(محمد ناصر منجاکوٹی دربند) (10 نومبر1995ء) جواب۔ سابقہ دلائل سے جب مصنوعی نسل کشی کا جواز نکل آیا تو انجکشن کے ذریعے جانور کو حاملہ کرنے کاجواز بھی خود بخودثابت ہو گیا[1]۔ کیونکہ ہر دو صورتوں میں مقصود مادۂ تولید کی منتقلی ہے۔ چاہے غیر معروف طریقہ سے ہی کیوں نہ ہو۔
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَۃِ،رقم:50 [2] ۔ صحیح البخاری،بَابٌ: أَدَاء ُ الخُمُسِ مِنَ الإِیمَانِ،رقم:53 [3] ۔ صحیح البخاری،بَابٌ: المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ،رقم:10 [4] ۔ مسند أبی داؤد الطیالسی،،رقم:1437مصنف ابن ابی شیبۃ،رقم25422