کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 63
اکبر آبادی مدیر’’برھان‘‘ دہلی، مولانا عبدالحلیم قاسمی( بانی جامعہ حنفیہ گلبرگ ،لاہور) مولانا حسین علی واں بھچراں، پیر کرم شاہ ازہری وغیرھم ہیں۔ اور ایسے بھی متعدد علماء ہیں جنھوں نے بہ وقت ضرورت (یعنی ناگزیر حالات میں) مجلس واحد کی تین طلاقوں کوایک طلاق شمار کرکے رجوع کرنے کا فتویٰ دیا ہے جیسے مفتی کفایت اللہ دہلوی اور مولانا عبدالحئی لکھنوی وغیرہ۔(دیکھئے ’’کفایت المفتی‘‘ اور ’’فتاویٰ مولانا عبدالحئی لکھنوی‘‘) اور ایسے بھی ہیں جو خود تو فتویٰ دینے سے گریز کرتے ہیں لیکن بعض خصوصی حالات میں وہ اپنے خاص مریدوں یا متعلقین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی اہل حدیث عالم سے فتوی حاصل کرکے رجوع کرلیں۔ بعض اور مسائل میں بھی اس قسم کی مثالیں موجود ہیں جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی مثال سطورِ بالا میں گزری ہے۔ یہ مولانا انور شاہ کشمیری کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے فقہ حنفی کے بہت سے مسائل کو چھوڑ کر دوسری رائے اختیار کی ۔ علاوہ ازیں انھوں نے حدیث کے بارے میں بعض علمائے احناف کی روش پر بھی سخت تنقید کی اور اسے محدثین کا استخفاف ، ان کی سعی و کاوش پر پانی پھیرنے اور منکرینِ حدیث کی ہم نوائی سے تعبیر کیا۔(اس کی تفصیل راقم کے مضمون’’مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور ان کا فقہی توسُّع‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، جو ان کی وفات کے بعد لکھاگیا تھا اور اُس وقت ’’الاعتصام‘‘، ’’میثاق‘‘ اور ’’محدث‘‘ بنارس(بھارت) وغیرہ میں شائع ہوا تھا۔ اس تقلید کو آخر کیا کہا جائے؟ جب اس قسم کی مثالیں موجود ہیں جو یقینا مستحسن بھی ہیں اور وقت کی ضرورت بھی اور سب سے بڑھ کر نصوصِ شریعت کا اقتضاء بھی۔ تو پھر اِس کے برعکس فقہی جمود کی یہ مثالیں ناقابل یقین لگتی ہیں جو بعض اکابر کی طرف سے سامنے آئی ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ان کی کتابوں میں موجود ہیں ، اس لیے انھیں جھٹلانا بھی ممکن نہیں ہے جیسے مثال کے طور پر مولانا محمود الحسن صاحب، جن کو شیخ الہند کہاجاتا ہے، فرماتے ہیں: (اَلْحَقُّ وَالْاِنْصَافُ أَنَّ التَّرْجِیْحَ لِلشَّافِعِیِّ فِی هذهِٖ الْمَسْئَلةِ وَ نَحْنُ مُقَلِّدُوْنَ یَجِبُ عَلَیْنَا تَقْلِیْدُ اِمَامِنَا أَبِیْ حَنِیْفةََ ‘) ”حق و انصاف کی بات یہی ہے کہ(احادیث و نصوص کے اعتبار سے اس مسئلۂ خیارِ مجلس) میں اِمام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے ۔ لیکن ہم مقَلِّد ہیں، ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ، کی تقلیدہی واجب ہے۔‘‘ اِسی ذیل میں بعض وہ تبدیلیاں بھی آتی ہیں جو نصوص حدیث میں محض اس لیے کی گئی ہیں کہ ان کے معمول بہ مسائل کا اثبات ہو سکے جیسے مسند حمیدی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث ہے جو اثبات رفع الیدین میں واضح ہے، لیکن الفاظ کے معمولی ردّ و بدل سے اسے عدم رفع الیدین کی دلیل بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح مصنَّف ابن أبی