کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 624
دونوں جمع ہو جائیں تو ایمان کا تعلق باطنی امور سے ہوتا ہے جب کہ اسلام کا ظواہر سے اس کی واضح مثال حدیث جبریل اور قصہ ٔ وفد عبد القیس ہے حدیث جبریل میں ایمان کی تعریف باطنی امور سے کی گئی ہے۔ فرمایا : (الإِیمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰهِ وَمَلاَئِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَبِلِقَائِہِ، وَرُسُلِہِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ) [1] اور قصۂ وفد عبد القیس میں ایمان کی تعریف ظاہری امور سے کی گئی ہے۔ فرمایا: (أَتَدْرُونَ مَا الإِیمَانُ بِاللّٰهِ وَحْدَہُ قَالُوا: اللّٰهُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، وَإِقَامُ الصَّلاَۃِ، وَإِیتَاء ُ الزَّکَاۃِ، وَصِیَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ المَغْنَمِ الخُمُسَ)[2] لیکن حدیث جبریل میں اسلام کی تعریف انہی ظاہری امور سے کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حدیث جبریل میں چونکہ دونوں جمع ہو گئے ہیں۔ اس لیے ایمان کی تعریف میں باطن کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اسلام میں ظاہر کا۔ اسی بناء پر اہل علم نے کہا ہے کہ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑا ہے۔ اَلمسلم کی تعریف میں فرمایا: (المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ)[3] یعنی کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔ لیکن مومن کے بارے میں فرمایا: (اَلْمُوْمِنَ مَنْ اٰمَنَ النَّاسُ بَوَائِقَہ)[4] یعنی مومن وہ ہے جس کی آفتوں سے لوگ مامون رہیں یعنی اس کی قلبی جلاء کی بناء پر لوگ اس سے خطرہ محسوس نہ کریں ۔ جب کہ المسلم سے صرف ظاہری اذیت ناک پہلوؤں کی نفی کی گئی ہے۔ اگرچہ دل سے لوگ اس سے خطرہ محسوس کرتے رہیں۔ اس دقیق فرق کے پیش نظر علامہ خطابی رقمطراز ہیں: (وَالحَقُّ اَن بَیْنَہُمَا عُمُوْمًا وَ خُصُوْصًا فَکَلُّ مُؤْمِنٍ مُسلِمٌ وَ لَیْسَ کُلُّ مُسْلِمٍ مَوْمِنًا) حق بات یہ ہے کہ مومن اور مسلم میں عموم اور خصوص کی نسبت ہے پس ہر مومن مسلم ہے لیکن ہرمسلم کے لیے مومن ہونا ضروری نہیں۔ امید ہے تشفی کے لیے بالاختصار بحث کافی ہوگی۔ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الایمان للامام ابن تیمیہ۔
[1] ۔ فتح الباری ،ج:9،ص:309