کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 621
کیا قرآن و حدیث میں طریقت اور تصوف کا لفظ منقول ہے؟ سوال۔ کیا طریقت اور تصوف کا لفظ کہیں قرآن یا حدیث میں آیا ہے اگر آیا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟ (ایک سائل) (14جنوری 1994ء) جواب۔ کتاب و سنت میں طریقت اور تصوف وغیرہ الفاظ کا استعمال نہیں ہوا۔ بعد کے اَدوار میں تارک الدنیا لوگوں نے مخصوص معانی کے لیے ان الفاظ کو ایجاد کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ فتاویٰ اہل حدیث،جلد اوّل، ص:44 تا 54، لشیخنا محمد روپڑی رحمہ اللہ تعالیٰ مشرک و کبائر کے مرتکب شخص کو قرآن خوانی وغیرہ اعمال نفع دیں گے؟ سوال۔ مشرک و کبائر کے مرتکب شخص کو قرآنی خوانی وغیرہ اعمال نفع دیں گے؟ جواب۔مذکورہ صفات کے حامل شخص کو چاہیے کہ اپنی اوّلین فرصت میں امدادی ذرائع سے دعوۃ الرسل توحید خالص کو سمجھنے کی سعی کرے یا پھر کسی موحد بزرگ عالم کی صحبت کو اختیار کرے تاکہ اس کی باطنی کیفیت میں جلاء پیدا ہو کر اس میں جذبہ توحید موجزن ہو جو اوّل و آخر ذریعہ نجات ہے۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ نکما بیج تو زمین بھی قبول نہیں کرتی۔ چہ جائیکہ سیاہ کاریوں اور بداعمالیوں کا سودا اللہ کے حضور پروان چڑھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ کابندوں پر بہت زیادہ حق ہے۔ اس کا تقاضاہے کہ بندہ کما حقہ حق عبودیت ادا کرے۔ اس کے ما سوا کسی کی پرستش نہ کرے اور نہ کسی کو نفع و ضرر اور خوف و رجاء وغیرہ میں اس کا شریک وسہیم سمجھے۔ خالی گھر ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس کو اپنے مقاصد میں استعمال کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اسی طرح یادِ الٰہی سے غافل اور بے بہرہ دل و دماغ بڑی آسانی سے شیطانی قوتوں کا ملجأ و ماوٰی بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں گناہ آلود زندگی خوبصورت و مزین لگنے لگتی ہے۔ آدمی ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ عمل کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود بخود معاملہ حسنہ کرے گا۔ میرے اعمال سے وہ مستغنی ہے، وغیرہ وغیرہ سوچنے کا مقام ہے۔ اگر یہ بات حقیقت کا رُوپ دھارے ہوتی تو انبیاء کرام اور اولیائے عظام کو عبادات کی مصائب و مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدہ نفس میں وہ اپنی نظیر آپ تھے۔ اس بناء پر وہ خلد بریں کے وارث ٹھہرے۔ سوال میں ذکر کردہ بہت ساری چیزیں شرکیات اور بدعات اور کبائر کی قبیل سے ہیں۔ دین اسلام سے غیر متعلق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے دین کا صحیح فہم و ادراک حاصل کیا جائے۔ پھر اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے کو ڈھالا جائے: ( الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ، مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا
[1] ۔ فتاویٰ اسلامیہ:3/189 [2] ۔ تفسیر اضواء البیان:5/32 [3] ۔ صحیح البخاری، بَابُ العَزْلِ،رقم:5209، صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْعَزْلِ،رقم:1440