کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 62
ان کا بھی یہ اعتراف موجود ہے:
”ایسی خواتین جنھوں نے نکاح کے وقت تفویض طلاق کے طریقے کو اختیار نہ کیا ہو، اگر بعد میں کسی شدید مجبوری کے تحت شوہر سے گلو خلاصی حاصل کرنا چاہیں، مثلاً شوہر اتنا ظالم ہو کہ نہ نفقہ دیتا ہو نہ آباد کرتا ہو۔ یا وہ پاگل ہو جائے یا مفقود الخبر ہو جائے یا نامرد ہو اور از خود طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو ، تو اصل حنفی مسلک میں ایسی عورتوں کے لیے شدید مشکلات ہیں، خاص طور پر اُن مقامات پر جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والا کوئی قاضی موجودنہ ہو، ایسی عورتوں کے لیے اصل حنفی مسلک میں شوہر سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے… حضرت حکیم الامت(مولانا تھانوی) قدس سرہ نے ایسے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتوی دیا ہے۔‘‘
اس میں یہ بھی صراحت ہے کہ (متحدہ) ہندوستان کے علماء نے بھی مولانا تھانوی کی تصدیق و تائید فرمائی۔
مثال کے طور پر زوجۂ مفقود الخبر کے متعلق فقہ مالکی کے مطابق یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے بعد چار سال انتظار کرے اور اس کے بعد چار مہینے10 دن عدت گزار کے دوسری جگہ نکاح کرلے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مرافعہ (عدالتی چارہ جوئی) کے بعد مزید انتظار کی صورت میں اگر عورت اندیشۂ ابتلاء ظاہر کرے اور اس نے ایک عرصۂ دراز تک مفقود کا انتظار کرنے کے بعد مجبور ہو کر اس حالت میں درخواست دی ہو جب کہ صبر سے عاجز آگئی ہو، تو اس صورت میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ مذہب مالکیہ کے موافق چار سال کی میعاد میں تخفیف کردی جائے، کیونکہ جب عورت کے ابتلا کا شدید اندیشہ ہو تو ان(مالکیوں) کے نزدیک کم از کم ایک سال صبر کے بعد تفریق جائز ہے۔
ایک اور حنفی عالم ڈاکٹر تنزیل الرحمن (سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) نے اس سے بھی کم مدت کے اندر، یعنی فی الفور عدالت کو نکاح فسخ کرکے دوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت دی ہے۔ چنانچہ وہ ایک سال کے قول کو(چار سال کے مقابلے میں) موجودہ زمانے کے لحاظ سے ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مگر لازم ہے کہ مزید ایک سال انتظار کا حکم اس صورت میں دیا جائے گا جب کہ عورت کے پاس ایک سال کے نفقے کا انتظام موجود ہو۔ بصورتِ دیگر عدالت، بعد ثبوت مفقود الخبری، بوجہ مفقود الخبری شوہر و عدم موجودگی نفقہ، فی الفور نکاح فسخ کرنے کی مجاز ہو گی۔‘‘
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ بھی اہل حدیث و احناف کے مابین ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس میں بھی متعدد علمائے احناف نے اہل حدیث کے نقطۂ نظر کو اپنایا ہے اور دوسروں کو بھی اس کے اپنانے کی تلقین کی ہے جیسے مولانا سعید احمد