کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 618
اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے مگر تاریخ معلوم نہ ہونے کی بناء پر اس پر نسخ کا حکم نہیں لگ سکتا۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: احتمال ہے کہ حدیث جذامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کی موافقت میں فرمائی ہو کیونکہ غیر مامور بہ امور میں آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ بعد میں اللہ نے اس کے حکم سے آگاہ فرمایا تو یہود کی تکذیب کردی۔ لیکن ابن رشد اور پھر ابن العربی نے اس کا تعاقب یوں فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کی پیروی میں کسی بات کو بالجزم بیان کریں اور پھر اسی امر میں ان کی تکذیب کی بھی تصریح کردیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ! بحث کے اختتام پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
( وَجَمَعُوا أَیْضًا بَیْنَ تَکْذِیبِ الْیَہُودِ فِی قَوْلِہِمُ الْمَوْء ُودَۃُ الصُّغْرَی وَبَیْنَ إِثْبَاتِ کَوْنِہِ وَأْدًا خَفِیًّا فِی حَدِیثِ جُذَامَۃَ بِأَنَّ قَوْلَہُمُ الْمَوْء ُودَۃُ الصُّغْرَی یَقْتَضِی أَنَّہُ وَأْدٌ ظَاہِرٌ لَکِنَّہُ صَغِیرٌ بِالنِّسْبَۃِ إِلَی دَفْنِ الْمَوْلُودِ بَعْدَ وَضْعِہِ حَیًّا فَلَا یُعَارِضُ قَوْلُہُ إِنَّ الْعَزْلَ وَأْدٌ خَفِیٌّ فَإِنَّہُ یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُ لَیْسَ فِی حُکْمِ الظَّاہِرِ أَصْلًا فَلَا یَتَرَتَّبُ عَلَیْہِ حُکْمٌ وَإِنَّمَا جَعَلَہُ وَأْدًا مِنْ جِہَۃِ اشْتِرَاکِہِمَا فِی قَطْعِ الْوِلَادَۃِ وَقَالَ بَعْضُہُمْ قَوْلُہُ الْوَأْدُ الْخَفِیُّ وَرَدَ عَلَی طَرِیقِ التَّشْبِیہِ لِأَنَّہُ قَطَعَ طَرِیقَ الْوِلَادَۃِ قَبْلَ مَجِیئِہِ فَأَشْبَہَ قَتْلَ الْوَلَدِ بعد مَجِیئہ قَالَ ابن الْقَیِّمِ الَّذِی کَذَبَتْ فِیہِ الْیَہُودُ زَعْمُہُمْ أَنَّ الْعَزْلَ لَا یُتَصَوَّرُ مَعَہُ الْحَمْلُ أَصْلًا وَجَعَلُوہُ بِمَنْزِلَۃِ قَطْعِ النَّسْلِ بِالْوَأْدِ فَأَکْذَبَہَمْ وَأَخْبَرَ أَنَّہُ لَا یَمْنَعُ الْحَمْلَ إِذَا شَائَ اللّٰهُ خَلْقَہُ وَإِذَا لَمْ یُرِدْ خَلْقَہُ لَمْ یَکُنْ وَأْدًا حَقِیقَۃً وَإِنَّمَا سَمَّاہُ وَأْدًا خَفِیًّا فِی حَدِیثِ جُذَامَۃَ لِأَنَّ الرَّجُلَ إِنَّمَا یَعْزِلُ ہَرَبًا مِنَ الْحَمْلِ فَأَجْرَی قَصْدَہُ لِذَلِکَ مَجْرَی الْوَأْدِ لَکِنَّ الْفَرْقَ بَیْنَہُمَا أَنَّ الْوَأْدَ ظَاہِرٌ بِالْمُبَاشَرَۃِ اجْتَمَعَ فِیہِ الْقَصْدُ وَالْفِعْلُ وَالْعَزْلُ یَتَعَلَّقُ بِالْقَصْدِ صِرْفًا فَلِذَلِکَ وَصَفَہُ بِکَوْنِہِ خَفِیًّا) [1]
عبارت ہذا کا مفہوم یہ ہے:
تعارض:اس مقام پر دو احادیث کے درمیان ظاہری تعارض کا حل پیش کیا گیا ہے۔ پہلی وہ حدیث جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی تکذیب فرمائی ہے۔ یہود کا کہنا تھا کہ عزل موؤدۃ صغریٰ (یعنی وأد صغیر چھوٹا زندہ درگور کرنا) ہے تو آپ نے انھیں جھوٹا قرار دیا۔ دوسری حدیث وہ جس میں آپ نے فرمایا کہ عزل وأد خفی ہے۔ یعنی ایک حدیث میں عزل کو وأدِصغیر کہنے کی نفی ہے اور دوسری حدیث میں عزل کو وأدِ خفی کہنے کا اثبات ہے۔
رفع تعارض۔ تو علماء نے ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق یہ دی کہ یہود کی تکذیب اس لیے کی کہ ان کی بات
[1] ۔ صحیح البخاری، بَابُ العَزْلِ، رقم:5209، صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْعَزْلِ،رقم:1440