کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 617
امید ہے جواب عنایت فرما کر عند اللہ اجر پائیں گے۔ جزاک اللہ فی الدارین خیرًا۔ (سائل قاراب۔ لاہور) (4نومبر 1994ء) جواب۔ حضرت جابر اور ابوسعید رضی اللہ عنھما وغیرہ سے مروی روایات واضح طور پر عزل (بوقتِ انزال علیحدگی) کے جواز پر دال ہیں۔ لیکن یہ جواز دو وجہ سے اولوِیّت کے منافی ہے۔ اوّلاً: جماع عورت کا حق ہے ۔ فعل ہذا کے ارتکاب سے لذتِ جماع میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس بناء پر اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کا جواز عورت کی اجازت پر موقوف ہے۔ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (لَا خِلَافَ بَیْنَ الْعُلَمَاء ِ أَنَّہُ لَا یُعْزَلُ عَنِ الزَّوْجَۃِ الْحُرَّۃِ إِلَّا بِإِذْنِہَا لِأَنَّ الْجِمَاعَ مِنْ حَقِّہَا وَلَہَا الْمُطَالَبَۃُ بِہِ وَلَیْسَ الْجِمَاعُ الْمَعْرُوفُ إِلَّا مَا لَا یَلْحَقُہُ عزل) [1] ”یعنی اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آزاد عورت سے عزل اس کی اجازت سے ہونا چاہیے کیونکہ جماع عورت کا حق ہے وہ اس کا مطالبہ کر سکتی ہے اور معروف جماع وہی ہے جس میں عزل نہ ہو۔ اس کے باوجود شوافع کا اس میں اختلاف موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جماع میں عورت کا اصلاً کوئی حق نہیں۔‘‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے تکثیرِ نسل میں کمی واقع ہوتی ہے جو شریعت کا مطلوب ہے۔ البتہ امام ابن حزم نے جذامہ بنت وہب کی حدیث: (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْعَزْلِ فَقَالَ ذَلِکَ الْوَأْدُ الْخَفِیُّ)[2] یعنی’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال ہوا تو جواباً فرمایا یہ خفیہ زندہ درگور کرنا ہے۔‘‘ کی بناء پر وطی کو واجب اور عزل کو حرام قرار دیا ہے ، لیکن ان کا یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہماری کچھ لونڈیاں تھیں اور ہم ان سے عزل کرتے تھے۔ یہود نے کہا یہ تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے یعنی زندہ اولاد کے بالمقابل ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت ہوا تو فرمایا : یہود جھوٹے ہیں اگر اللہ مخلوق پیدا کرنی چاہے کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے رفع تعارض کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ جذامہ کی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول ہے اور بعض نے جذامہ کی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی سعی کی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَالْحَدِیثُ صَحِیحٌ لَا رَیْبَ فِیہِ وَالْجَمْعُ مُمْکِنٌ ) ”یعنی بلاشبہ حدیث صحیح ہے اور متعارض حدیثوں میں تطبیق و جمع ممکن ہے۔‘‘
[1] ۔ اطباء کی اصطلاح میں دواخانہ پنساری کی دکان یا اسٹور کو کہا جاتا ہے۔ جب کہ شفا خانہ حکیم و طبیب کی دکان وغیرہ کو کہتے ہیں جہاں بیماریوں کی تشخیص اور پھر ان کے لیے دوائیں تجویز کی جاتی ہیں جن کے استعمال پر اللہ سے شفاء کی امید رکھی جاتی ہے۔ عربی میں ہسپتال کو ’’مستشفیٰ‘‘ کہا جاتاہے۔ جس کے معنی ہیں’’شفاء طلب کرنے کی جگہ۔‘‘ (ن۔ح۔ن)