کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 608
چاہے بعض زہر آلود عضوؤں کو کاٹ کر ہی اس کی اصلاح کیوں نہ کرنی پڑے بلکہ زندہ کی مصلحت کی خاطر کئی ایک اہل علم مردہ کی چیر پھاڑ کے بھی قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ’’المحلّٰی‘‘ میں فرماتے ہیں: ”اگر حاملہ عورت فوت ہو جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ حرکت کرتا معلوم ہو جس پر چھ ماہ سے اوپر مدت گزر چکی ہو تو اسے آپریشن کے ذریعہ نکال لیا جائے۔ قرآن میں ہے :’’جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے سب لوگوں کی جانیں بچائیں۔‘‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’المجموع‘‘(5/301) میں اس قول کی تصویب کی ہے اور اسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اکثرفقہاء کی طرف منسوب کیا ہے لیکن عمل ہذا کو ’’کشاف القناع‘‘ اور ابوداؤد نے اپنے مسائل میں ناجائز قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: (سَمِعْتُ اَحْمَدَ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأۃِ تَمُوْتُ وَالْوَلَدُ یَتَحَرَّکُ فِیْ بَطْنِہَا أ یُشَقُّ عَنْہَا قَالَ لَا ۔ ’ کَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ کَکَسْرِہِ حَیًّا) یعنی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث[1] کی رو سے پیٹ چاک کرکے بچہ نکالنے کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ علامہ رشید رضا مصری اس کے حواشی میں رقمطراز ہیں: ”اس حدیث سے علی الاطلاق ترک جنین پر استدلال جائز نہیں ہے کیونکہ حدیث کا مقصد میت کی لاش کو بے حرمتی سے بچانا ہے یعنی لاش کی بے حرمتی کے لیے ہڈی وغیرہ توڑنا(مثلہ کرنا) حرام ہے۔ اور عمل جراحی بے حرمتی کے تحت نہیں آتا اورپھر بعض اوقات وہ بچہ زندہ بھی رہتا ہے۔ لہٰذا یہ طبی عمل بلاشبہ جائز ہے۔‘‘ اسی طرح زندہ آدمی کی مصلحت کے پیش نظر سوال میں مذکورہ اشیاء کی منتقلی کا بھی جواز ممکن ہے۔ بشرطیکہ ان سے استفادہ کا ظن غالب ہو۔ سعودی عرب کی ہیئت کبارالعلماء (علماء کی سپریم کونسل ) نے بھی اکثریت سے مردہ کے اعضاء کی منتقلی کے جواز کا فتویٰ صادر کیا ہے۔ (قرار رقم 62، تاریخ 25/10/1398ھ، مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، عدد:14، ص:67۔68) نص کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ” مطالعہ، بحث وتمحیص اور باہمی تبادلہ خیالات کے بعد علماء کے اجلاس میں اکثریت کے ذریعے درج ذیل فتویٰ طے پایا،
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یُخَوِّفُ اللَّہُ عِبَادَہُ بِالکُسُوفِ …الخ ،رقم:1048