کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 586
(کَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ وَکَانَتِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ فَنَسَخَ اللّٰهُ مِنْ ذَلِکَ مَا أَحَبَّ) [1]
”سنن ابی داؤد‘‘ میں ہے:
(بَابُ مَا جَاء َ فِی نَسْخِ الْوَصِیَّۃِ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ)
مسئلہ ہذا میں تفصیل کے لیے اصولِ تفسیر کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔ جملہ حقائق سے آگاہی حاصل ہوگی۔
قرآنی تفاسیر میں سے کونسی تفسیر زیادہ اصح اور مفید ہے؟
سوال۔ شائع شدہ اُردو قرآنی تفاسیر مثلاً(تفہیم القرآن، احسن التفاسیر، ماجدی ، ترجمان القرآن ) وغیرہ میں سے کونسی تفسیر زیادہ اصح اور مفید ہے؟ تاکہ اس سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے۔
(محمد صدیق تلیاں۔سمندر کٹھ ضلع ایبٹ آباد) (21 اگست 1998ء)
جواب۔ مذکورہ بالا کتابیں فی الجملہ اچھی ہیں۔ سب کا مطالعہ کریں لیکن احسن التفاسیر کا خاص اہتمام کریں۔
قرآن مجید کا لفظی اور بامحاورہ اردو تراجم میں زیادہ صحیح اورمفید کونسا ہے؟
سوال۔ قرآن مجید کے لفظی اور بامحاورہ شائع شدہ اُردو تراجم مثلاً(حافظ نذر احمد، عبید اللہ عبید،ڈاکٹر محمد دین وغیرہ) میں زیادہ صحیح اور مفید کونسا ہے۔ تاکہ اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
(محمد صدیق تلیاں۔سمندر کٹھ ضلع ایبٹ آباد) (21اگست 1998ء)
جواب۔ مذکورہ بالا سب تراجم کا مطالعہ کریں۔ عبید اللہ عبید کے ترجمہ کا اہتمام کرنا مفید ہے۔
[1] ۔ قال ابن کثیر: وَأَقْرَبُ مَا فِی ہَذَا أَنَّہُ مِنْ رِوَایَۃِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ کَعْبِ الْأَحْبَارِ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَمَا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی تَفْسِیرِہِ، عَنِ الثَّوْرِیِّ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ کَعْبٍ، قَالَ ابن کثیر أیضًا ۔ وَرَوَاہُ ابْنُ جَرِیرٍ أَیْضًا ۔حَدَّثَنِی الْمُثَنَّی، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی -وَہُوَ ابْنُ أَسَدٍ-حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ، حَدَّثَنِی سَالِمٌ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّہِ یُحَدِّثُ، عَنْ کَعْبِ الْأَحْبَارِ، فَذَکَرَہُ فَہَذَا أَصَحُّ وَأَثْبَتُ إِلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ مِنَ الْإِسْنَادَیْنِ الْمُتَقَدِّمَیْنِ، وَسَالِمٌ أَثْبَتُ فِی أبیہ من مولاہ نَافِعٍ. فَدَارَ الْحَدِیثُ وَرَجَعَ إِلَی نَقْلِ کَعْبِ الْأَحْبَارِ، عَنْ کُتُبِ بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ.(1/184۔التفسیر)
[2] ۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف نے ’’احسن التفاسیر‘‘ (1/109) کے حاشیہ پر فرمایا: لیکن اس بارے میں درست تحقیق ’’حافظ ابن کثیر‘‘ کی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ اسرائیلی روایت ہے کیونکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے دراصل یہ روایت کعب احبار سے اخذ کی ہے چنانچہ ایک مسند میں اس کا ذکر بھی ہے بنابریں زہرہ والی کہانی بے اصل ہے۔(نعیم الحق نعیم)