کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 580
اس آیت ِ کریمہ میں اس جادو کا بیان ہے جس پر(اَرْذَلُ خَلْقِ اللّٰہِ) یہود عامل تھے۔پھر یہ ان اشیاء میں سے ہے جن کو شیاطین نے سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے عہد میں گھڑا تھا۔( تاکہ اللہ کی مخلوق کو ورغلایا اور پھسلایا جا سکے) اور اس کا تعلق اس سے بھی ہے جو کچھ بابل کی سرزمین میں ہاروت اور ماروت پر نازل ہوا تھا۔ ثانی الذکر عہد کے اعتبار سے اوّل الذکر سے متقدم ہے کیونکہ قصہ ہاروت و ماروت بقول ابن اسحاق زمانہ نوح علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ جادو حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود تھا کیونکہ اللہ نے خبر دی ہے کہ قوم نوح علیہ السلام کا دعویٰ مزعومہ تھا کہ یہ( نوح علیہ السلام) ساحر ہے۔ اسی طرح جادو قوم فرعون میں بھی پھیلا ہوا تھا۔ یہ سارا کچھ عہد سلیمان سے(بہت) پہلے کا ہے۔ اس آیت سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے سحر و کہانت کی کتابوں کو جمع کرکے اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیا۔ کوئی شیطان کرسی کے نزدیک پھٹک نہیں سکتا تھا۔ جب سلیمان علیہ السلام اور وہ علماء جن کو اصل معاملہ سے آگاہی تھی، فوت ہوگئے تو شیطان انسانی شکل میں ان کے پاس آیا۔ یہودیوں سے کہا کہ میں آپ کو ایک ایسا خزانہ بتاتا ہوں جو بے مثال اور بے نظیر ہے۔ کہا ہاں بتاؤ! انھوں نے کرسی کے نیچے کھدائی کرکے ان کتابوں کو حاصل کرلیا تو شیطان نے ان سے کہا سلیمان کو انہی کے ذریعہ جن و انس پر کنٹرول حاصل تھا۔ اس واقعہ سے یہ بات عام پھیل گئی کہ سلیمان ساحر تھا۔ جب قرآن نے سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ انبیاء میں کیا تو انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہا: وہ تو جادوگر تھا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قصۂ ہاروت و ماروت ’’مسند احمد‘‘ میں بسند حسن ابن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث میں مروی ہے۔ طبری نے اس واقعہ کے کئی طرق بیان کیے ہیں۔[1] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قصہ کا اصل موجود ہے۔ [2] بخلاف ان لوگوں کے جنھوں نے اس قصہ کو باطل قرار دیا ہے۔ جیسے قاضی عیاض وغیرہ۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ اللہ نے بطورِ آزمائش دو فرشتوں میں شہوت و دیعت کردی، پھر ان کو حکم دیا کہ زمین پر