کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 58
اس طریقے کو اصطلاحی طور پر تقلید نہیں کہا جاتا، کیونکہ تقلید کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی۔ تقلید تو کسی کی بات کو بغیر دلیل کے ماننے کا نام ہے۔ علاوہ ازیں اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ماننے والا( مقلِّد) مُقَلَّد(امام وغیرہ) سے دلیل کا مطالبہ نہیں کر سکتا، جب کہ ایک عام شخص جب کسی عالم سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے یا کسی مفتی سے فتویٰ طلب کرتا ہے تو اس کے پیش نظر اللہ اور اس کے رسول کا حکم معلوم کرنا ہوتا ہے، اسی لیے وہ اس کی دلیل بھی، بہ وقت ضرورت، پوچھ لیتا ہے اور پوچھ سکتا ہے ، یا اس کی بتلائی ہوئی دلیل سے اس کی تشفی نہیں ہوتی تو وہ کسی اور عالم یا مفتی سے پوچھ لیتا ہے۔ اس طریقے میں عالم اور مفتی بھی قرآن و حدیث کی روشنی ہی میں مسئلے کی وضاحت کرتا ہے، کسی مخصوص فقہ کو سامنے نہیں رکھتا۔ یہ طریقہ اقتدا اور اتباع کہلاتا ہے کیونکہ اس میں اصل جذبہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی کرنے کا ہوتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے تک تمام مسلمان عوام و خواص، جاہل و عالم اسی طریقے پر کاربند تھے۔ لیکن جب چوتھی صدی میں فقہی مذاہب کو فروغ حاصل ہوا اور محدثین اور اُن کے ہم مسلک لوگوں کے علاوہ دوسروں نے اپنے آپ کو کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ کرلیا تو مذکورہ طریقہ صرف محدثین اور ان کی روش پر چلنے والوں تک محدود ہو گیا اور دوسروں کے ہاں ایک مخصوص فقہ کی پابندی ضروری ہوگئی اور ان کے عوام و خواص سب ہی نے صحابہ و تابعین کے طریقے کو چھوڑ دیا اور تقلید کو واجب قرار دے دیا۔جس کا مطلب ہی یہ تھا اور ہے کہ اب براہِ راست قرآن و حدیث سے اخذِ مسائل کی ضرورت نہیں حتی کہ علماء و مفتیان بھی اپنے عوام کو قرآن و حدیث کے مطابق مسائل بتلانے کے پابند نہیں۔ وہ پابند ہیں تو صرف اس بات کے کہ ان کی مخصوص فقہ میں کیا درج ہے، اس کی روشنی میں یہ جائز ہے یا ناجائز؟ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عوام کو احادیث کی کتابوں کے مطالعے سے روکتے ہیں اور کئی مفتی حضرات تو اس حد تک جسارت کرتے ہیں کہ اسے گمراہی قرار دیتے ہیں۔ افتراقِ امت کا باعث تقلید حرام ہے ، نہ کہ علماء کی پیروی: افتراقِ امت کے المیے کا اصل نقطۂ آغاز بھی یہی ہے ورنہ قرآن و حدیث کے فہم و تعبیر کا یا اجتہاد و استنباط کا کچھ نہ کچھ اختلاف تو صحابہ و تابعین میں بھی تھا۔یہ اختلاف محدثین کے درمیان بھی تھا اور ان کے مسلک و منہج کے پیروکار عاملین بالحدیث کے درمیان بھی ہے لیکن یہ اختلاف فہم و تعبیر کا ہے یا استنباط و اجتہاد کا یا پھر اس کا مبنی حدیث کی صحت و ضعف کا اختلاف ہے، جیسے صحابہ میں اختلاف کی ایک وجہ کسی حدیث سے بے خبری یا اس کے نسخ یا عدم نسخ سے لاعلمی بھی تھی۔ یہ اختلاف افتراقِ امت کا باعث نہیں، اسی لیے صحابہ و تابعین کا دور ،اختلافات کے باوجود، فرقہ بندیوں سے پاک تھا۔ بنابریں اہل تقلید کا یہ دعویٰ کہ ہماری تقلید وہ نہیں جس کو ممنوع اور حرام کہا گیا ہے بلکہ ہمارا طریقہ تو وہی ہے جو صحابہ