کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 578
فارسی رضی اللہ عنہ سخت غمگین ہوئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ جس سے اس طرف اشارہ کیا۔ جس نبی کا زمانہ ہو اس نبی کی شریعت کے تحت رہ کر جو ایمان لائے اور عمل نیک کرے اس کے لیے یہ خوشخبری ہے نہ کہ اپنے طور پر کسی کام کو اچھا سمجھ کر کرنے لگ جائے۔ اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) (آل عمران: 85) ”جو شخص اسلام کے سوا کوئی دین ڈھونڈے پس ہر گز نہیں قبول کیا جائے گا اس سے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔‘‘ الفاظ کی تشریح: چونکہ یہاں ایمان کا معاملہ اعمال سے ہے۔ اس لیے ایمان سے مراد اعتقاد ہے۔ لیکن صرف اعتقاد نجات کے لیے کافی نہیں اس لیے ساتھ اعمال کا بھی ذکر کیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایمان سے مراد عام ہو۔ جس میں اعمال بھی داخل ہوں۔ اور اعمال کا الگ ذکر یہ ان کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے ہو۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ (مَنْ کَانَ عَدُوًّ الِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْکٰلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِیْنَ) (البقرۃ: 98) ”یعنی جو شخص اللہ کا فرشتوں کا اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو پس بے شک اللہ تعالیٰ دشمن ہے واسطے کافروں کے۔‘‘ اس آیت میں فرشتوں کا ذکر کرنے کے بعد جبرئیل اور میکائیل کا الگ الگ ذکر کیا ہے۔ یہ صرف ان کی بزرگی اور بڑائی کے لیے ہے۔ اسی طرح اعمال کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اعتقاد کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ عملِ صالح کی تین شرطیں ہیں۔ ایک اعتقاد کا صحیح ہونا۔دوسرے شریعت کے موافق ہونا۔ تیسرے ، اصلاحِ نیت۔ اعتقاد کے صحیح ہونے کا مطلب ہے کہ توحید کا قائل ہو اور شریعت کے موافق ہونے کا مطلب بدعت نہ ہو۔ شریعت میں اس عمل کا ثبوت ہو۔ اخلاصِ نیت کا یہ مطلب ہے کہ محض اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ کسی کے دباؤ یا لحاظ یا دکھاوے کے لیے نہ ہو۔ حزن ، خوف اور غم میں فرق یہ ہے کہ حزن اس چیز پر ہوتا ہے جو چھن گئی ہو۔ خوف آئندہ چیز کا ہوتاہے جیسے تجارت میں کہیں نقصان نہ ہو جائے اور غم عام ہے۔ گزشتہ چیز پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کسی کا کوئی مر جائے اور آئندہ کا بھی جیسے امتحان میں کہیں ناکام نہ ہو جاؤں۔ (یَحْزنُوْن) کا باب دو طرح سے آتا ہے۔ ایک حَزَنَ یَحْزُنُ بروزن نَصَرَ یَنْصُرُ اس کے مصدر حزن کے معنی ہیں ۔ دوسرے کو غمگین کرنا چنانچہ قرآن میں ہے: {لَا یَحْزُنکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی ْالکُفْرِ} یعنی نہ
[1] ۔ زاد المعاد: 1/ 263، 264