کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 577
بھی پڑھتے ہیں۔ بعض ان میں سے زبور بھی پڑھتے ہیں۔ ان چاروں کا نام لے کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور انھوں نے اعمالِ صالحہ کیے۔ صرف ان کے لیے خوشخبری ہے ۔ (فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْن) ان لوگوں کا اپنے اپنے زمانہ میں ایمان اور عمل معتبر تھا۔ مثلاً جب تک عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئے، اس وقت تک موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر پوری طرح عامل رہے۔ ان کے لیے یہ خوشخبری ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد پہلی شریعت منسوخ ہو گئی۔ اب عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر جو پوری طرح عامل رہا وہ اس خوشخبری کا حق دار ہے۔اس کے بعد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ اب پہلی تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔ اب نجات کا دارومدار شریعتِ محمدیہ پر ہے۔ ایک اشکال:یہاں ایک شبہ ہوتا ہے کہ پہلی شریعتیں جو منسوخ ہو چکی ہیں۔ صرف ان تینوں کا ذکر کافی تھا۔ یہودی، عیسائی اور بے دین۔ چوتھا فرقہ جو اس شریعت پر ایمان لایا اس کا ذکر یہاں بے محل ہے کیوں کہ اس شریعت پر جو ایمان لا چکے ان کے پھر ایمان لانے کا کوئی مطلب نہیں۔ جواب:اس کے دو جواب ہیں: 1۔ ایک یہ کہ ان کے ایمان لانے کا مطلب ایمان پر ہمیشگی اور ثابت قدمی ہے کیوں کہ دارومدار خاتمہ پر ہے۔ خاتمہ سے پہلے ایمان لایا ہوا کافی نہیں جب تک خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔ 2۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاںایمان لانے والے سے مراد وہ ہے جو مدعی ایمان ہے۔ جیسے منافق یا کمزور ایمان والے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ اس امت میں سے جن کا دعویٰ ایمان کا ہے وہ اس خوشخبری کے اس صورت میں مستحق ہوں گے کہ وہ حقیقی معنی میں ایمان لائیں اور عمل نیک کریں۔ تنبیہ: ایک لفظ کا معنی حقیقی اور مجازی دونوں کا ایک وقت میں مراد ہونا۔ یہ امام شافعی کے نزدیک جائز ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ منع کے قائل ہیں۔ اس آیت سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کو تائید ملتی ہے کیوں کہ {مَنْ آمَن} کے دو معنی ہوں گے۔ پہلے فرقے کے حق میں اس کے معنی ہوں گے جو ایمان پر ثابت قدم رہے۔ یہ آمَنَ کے مجازی معنی ہیں اور باقی فرقوں کے حق میں ہوں گے جو ایمان لائے اور یہ آمَنَ کے حقیقی معنی ہیں تو گویا اس میں حقیقی اور مجازی دونوں مراد ہوئے۔ شانِ نزول:سلمان فارسی اوران کے ساتھیوں کی عمر مجوسی مذہب پر گزری۔ کچھ عیسائیت پر ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان نصیب کردیا،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے ساتھیوں کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لاتے تھے۔ اور اس بات کی شہادت دیتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہوں گے۔ ان کا کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنمی ہیں( کیونکہ وہ یہ کام کسی شریعت کے تحت نہیں کرتے تھے۔ سلمان