کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 575
میں عرصہ دراز سے چند الجھنوں میں گرفتار ہوں۔ امید ہے آپ تسلی بخش رہنمائی فرما کر مشکور ہوں گے۔ سب سے اہم مسئلہ بخاری شریف میں وارد بعض روایات ہیں جو کہ عجیب خلجان پیدا کردیتی ہیں۔ مثلاً کتاب التفسیر میں موجود عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا {وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ } (الحج:52) کے ساتھ {وَلاَ مُحَدَّثٍ} کا اضافہ اس روایت کو پڑھ کر چند اشکالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید مکمل نہیں؟ اگر مکمل ہے تو پھر یہ روایت ایک صحابی کی ایسی جرأت واضح کرتی ہے جو کہ ان کی شان کے یکسر منافی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ قراء ت کا اختلاف ہے تو میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس قراء ت میں نبی رسول کے علاوہ ایک اور منصب کاتذکرہ ہے جو کہ تیسرا منصب بیان ہوا ہے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک قراء ت میں دو منصب بیان ہوئے۔ تیسرا منصب جو کہ ان مناصب ِ مذکورہ سے بالکل جدا ہے وہ مذکور نہیں ہے۔ 1۔ بہرحال یہ ایک قول ہے جو کہ اللہ کے رسول کابھی نہیں ہے۔ 2۔ اس سے قرآن کا موجودہ صورت میں اُن الفاظ پر نہ ہونا۔ خود شک کا باعث ہے۔ اس قسم کی روایات کو محض اس بناء پر قبول کرنا کہ بخاری میں ذکر ہیں یہ انکارِ حدیث کی راہیں ہموار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اور قرآن پر لب کشائی کا موقع دینا بھی ہے۔ امید ہے اس پر آپ غور کرکے اپنی مجتہدانہ رائے دے کر تحقیق کا ایک راستہ کھولیں گے یا اس کے بارے میں جو صحیح تحقیق ہو جو ہم تک نہ پہنچ سکی فراہم کریں گے۔ جزاکم اللّٰہ ۔ (ابو أواب جامعہ کراچی) (20 اگست 1999ء) جواب۔ ’’صحیح بخاری‘‘کتاب التفسیر ’’سورۃ الحج‘‘ کے شروع میں یہ قول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بایں الفاظ مروی ہے: (إِذَا حَدَّثَ أَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی حَدِیثِہِ)[1] لیکن اس میں قرآنی آیت {وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ }(الحج:52) کا اضافہ نہیں جس طرح کہ سوال میں مصرح ہے۔ اکثر مفسرین کا قول یہ ہے کہ لفظ تمنی کا معنی قرأ اور تلا ہے۔ یعنی پڑھا اور تلاوت کی۔ اس امر کی وضاحت یوں ہے کہ شیطان رسول یا نبی کی قراء ت میں شکوک و شبہات ڈالنے کی سعی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو نبی کی پیروی سے روک سکے۔ اس کا یہ مفہوم ہر گز نہیں کہ اس طرح قرآن کے الفاظ ہیں افراط و تفریط واقع ہو جاتی ہوجب کہ حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ اسی بناء پر بعد میں فرمایا: (فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (الحج:52) ”تو جو (وسوسہ) شیطان ڈالتا ہے اللہ اس کودور کردیتا ہے۔ پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے اور اللہ علم