کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 57
”تمام نصوص ردّ تقلید سے اُس تقلید کا بُطلان ثابت ہوتا ہے کہ جو تقلید بہ مقابلہ تقلید احکامِ خدا اور رسولِ خدا ہو اوران کے اتباع کو اتباع احکامِ الٰہی پر ترجیح دے۔ سو پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس تقلید کے مردود و ممنوع ، بلکہ کفر ہونے میں کس کو کلام ہے؟‘‘ اقتداء و اتباع تو ناگزیر ہے لیکن زیر بحث تقلید اس سے قطعاً مختلف ہے: ان اقتباسات سے یہ تو واضح ہے کہ کسی امام کی اس انداز سے تقلید کرنا کہ صحیح اور واضح حدیث کے سامنے آجانے کے بعد بھی قولِ امام ہی کو ترجیح دینا اور اس کے مقابلے میں صحیح حدیث کو چھوڑ دینا ممنوع، حرام { اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّٰه } کا مصداق اور بقول صاحبِ ’’ایضاح الادلّہ‘‘ کفر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مروّجہ تقلید اس سے مختلف ہے یا وہ اِسی ذیل میں آتی ہے جس کی مذمت و حرمت پر سب کا اتفاق ہے؟ اہل تقلید کا دعویٰ ہے کہ ہمارا وہی طریقہ ہے جو عہد صحابہ وتابعین میں تھا، یعنی جس شخص کو مسئلے کا علم نہ ہوتا تھا، وہ کسی بھی صاحب علم سے دریافت کرلیتا تھا۔ تین سو سال سے زیادہ عرصے تک یہی طریقہ رائج تھا، یہ طریقہ ظاہر بات ہے بالکل صحیح بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ کیونکہ ہر شخص تو ماہر شریعت نہیں ہو سکتا، لہٰذا ضروری ہے کہ بے خبر شخص، باخبر شخص سے پوچھے۔ بے علم عالم سے دریافت کرے اور کم علم والا اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے کی طرف رجوع کرے۔ یہ معاملہ شریعت ہی کے ساتھ خاص نہیں، ہر علم و فن کا معاملہ یہی ہے۔ شرعی مسائل و احکام معلوم کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے اور عوام کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ لیکن اس میں دو باتیں ضروری ہیں اور صحابہ و تابعین کے زمانے میں ان دونوں باتوں کا پورا اہتمام موجود تھا۔ 1۔ پوچھنے والا صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پوچھتا تھا، اِس کے علاوہ اس کے ذہن میں کچھ اور نہیں ہوتا تھا۔ 2۔ بتانے والا بھی اپنے علم کی حد تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہی بتلاتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگراسے اس مسئلے کا علم نہ ہوتا، تو وہ سائل کو کسی اور کی طرف بھیج دیتا، یا اپنی سمجھ کے مطابق بتلاتا ، پھر اسے اس کے مطابق حدیث مل جاتی تو خوش ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے منہ سے صحیح بات نکلوائی۔ اور اگر اسے اس کے خلاف حدیث مل جاتی، توفوراً اپنی بات سے رجوع کرلیتا۔ خیرالقرون کا یہی طریقہ شاہ ولی اللہ نے پوری تفصیل سے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اور اپنی بعض دیگر کتابوں میں بیان کیا ہے حتی کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی ’’امداد الفتاویٰ‘‘(ج:5،ص:294۔300) میں اس کی بابت یہی تفصیل بیان کی ہے۔