کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 569
سائنسی آلات سے بارش کے امکانات کی خبر دینا، یا بتانا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ؟ سوال۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ لیکن جو سائنسی آلات ایجاد ہوچکے ہیں اُن کے ذریعے پتا لگالیا جاتا ہے کہ فلاں روز بارش ہوگی اور فلاں مقام پر ہوگی اور بچی اور بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا پتا لگا لیا جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے کہ بچی۔ بخاری شریف کی صحیح حدیث کے کیا معنی ہوں گے؟ (سائل)( 20۔اپریل2007ء) جواب۔ سائنسی ایجادات کے موجد ہواؤں کے رخ سے بارش کے بارے میں قیاس آرائی کرتے ہیں اس کا نام علم غیب نہیں۔ اور مافی الارحام سے مراد رحم کی جملہ کیفیات ہیں اس سے صرف لڑکا یا لڑکی مقصود نہیں ورنہ اس کا علم تو رحم پر مقرر فرشتے کو ڈاکٹروں سے بھی پہلے ہوجاتا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی فتویٰ الاعتصام میں پہلے چھپ چکا ہے۔ (قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر کے متعلق سوالات) ”اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہدایت دیتا ہے‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ سوال۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے ، یا اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے۔‘‘ ایسا قرآن میں بہت سی جگہ ہے ، اس سے کیا مراد ہے؟(ایک سائل) (14جنوری 1994ء) جواب۔ قرآنی آیات سے مقصود یہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جن میں ضبط کا مادہ ہوتا ہے اور نفس پر کنٹرول کر سکتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور کسی کا حکم اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں ہوتی بلکہ وہ انکار کرکے یا خواہشِ نفسانی کے تابع ہو کر حق سے دُور ہو جاتے ہیں اور اللہ کی طرف سے ایسے لوگوں کو توفیق نہیں ملتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر ان کی باگ ڈور ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ جس سے گمراہی کے گڑھے میں جاگرتے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ o وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِہِمْ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ کٰفِرُوْنَ( (التوبة:124) ”سو جو ایمان لائے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر“ نیز علامہ سعدی ’’تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان‘‘ میں فرماتے ہیں: ( فَاقْتَضَتْ حِکَمَتُہٗ تَعَالٰی إِضَلَالَھُمْ لِعَمَدِ صَلْحِیَتِھِمْ لِلْھُدَی کَمَا اقْتَضَی فَضْلُہٗ
[1] ۔ غالباً اس سے حضرت مفتی صاحب کی مراد یہ ہے کہ اگر سنت سے کوئی تعداد ثابت نہ ہو تو کسی تعداد کے مسنون ہونے کا گمان کرلینا درست نہیں، البتہ اگر کوئی شخص اپنی سہولت کی خاطر اور ہمیشہ عمل کرنے کے لیے کوئی تعداد مقرر کر لیتا ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)( عبدالوحید) [2] ۔ ارواء الغلیل: 3/150