کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 567
پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا مہربانی فرما کر اس مسئلہ کی شرح و بسط سے وضاحت فرما کر اس فتنے کا سدِّ باب فرمائیں۔ )قاری حسان احمد) (22 نومبر 1996ء) جواب۔ بلاریب مَا فِی الاَرْحَامِ کا علم پانچ مفاتیح الغیب میں سے ایک ہے۔ ان کا نام مفاتیح الغیب(غیب کی چابیاں) اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ بنیادی قسم کی غیب کی چیزیں ہیں۔ آیت ہذا میں (مَا) اسم موصول عموم کا فائدہ دیتا ہے اور علم کا اس عموم کے ساتھ ربط و تعلق بھی عمومی ہے جس کی بناء پر آسانی سے یہ نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ ماؤں کے رحموں میں ہے وہ صرف اسی پر منحصر نہیں کہ نشوونما پانے والا لڑکا ہے یا لڑکی، ایک ہے یا متعدد بلکہ (مَا فِی الارْحَام)کا علم اس کے علاوہ بہت ساری چیزوں کو حاوی ہے مثلاً زندہ باہر آئے گا یا مردہ، تادیر دنیا میں زندہ رہے گا یا کم مدت، نیک بخت ہے یا بدبخت، ناقص ہو گا یا کامل، خوبرو ہو گا یا بد شکل، کالا ہو گا یا گورا، عالم ہو گا یا جاہل وغیرہ۔ یہاں تک کہ جملہ وہ امور جن کا تعلق حمل سے ہے ان باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ چاہے وہ مقرب فرشتہ ہو یا نبی مرسل۔ مقصود یہ ہے کہ عموم اور خصوص کے اعتبار سے اس فرمان کا تعلق صرف باری تعالیٰ سے ہے۔ کائنات میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ سید معین الدین محمد بن عبدالرحمن نے اپنی مشہور و معروف تفسیر ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں خوب فرمایا ہے: (وَ کَذٰلِکَ لَا یَعْلَمُ اَنَّ مَا فِی الاَرْحَامِ ذَکَرٌ اَوْ اُنْثٰی اِلَّا حِیْن مَا اَمَر بِکَوْنِہ ذَکَرًا اَو اُنْثٰٰی شَقِیًّا اَوْ سَعِیْدًا) (ص:156) یعنی ’’اس طرح پیٹوں میں جو بچہ یا بچی ہے۔ اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہوتا مگر اس وقت جب اللہ(فرشتے کو) حکم دیتا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی، بدبخت ہے یا نیک بخت۔‘‘ اس سے مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے مشہور حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حمل جب ابتدائی مراحل سے گزر کر تذکیر یا تانیث کے مرحلہ پر پہنچتا ہے تو رحم پر مقرر فرشتہ رب العزت سے دریافت کرتا ہے(اَذَکَرٌ اَمْ انثٰی)[1] ’’اے اللہ لڑکا یا لڑکی؟ حسب امر حمل اسی کیفیت میں بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد جا کر کہیں طب حدیث کو آلاتِ جدیدہ اور مشینی ذرائع سے جنسیت کا علم ہوتا ہے۔ اس سے قبل قطعاً اس بات کا علم نہیں ہو سکتا۔ بچہ ہو گا یا بچی جب کہ اللہ کا علم تمام کیفیات کو محیط ہے۔ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الارْحَام کا یہی مفہوم ہے۔ یاد رہے جس طرح ایک فرشتے کا علم اس آیت کے منافی نہیں۔ اسی طرح اس حالت میں ڈاکٹری معلومات بھی آیت کے معارض نہیں۔ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ڈاکٹری تحقیق کا تعلق اتمام تخلیق کے بعد سے ہے جب کہ اللہ کو بچہ یا بچی کے معرض ِ
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:2697