کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 56
ہوتے ہیں، ان میں انھوں نے اہل تقلید کے اس رویے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس پر سخت افسوس کا اظہار بھی۔ مولانا تھانوی اپنے ایک مکتوب میں، جو انھوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم کے نام تحریر کیا ، لکھتے ہیں: ”اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے (تو) اُن کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اوّل استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اُس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بہ جز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اُس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کرلیں۔ بعض سنن مختلف فیہا مثلاً آمین بالجہر وغیرہ پر حرب و ضرب کی نوبت آجاتی ہے۔ اور قرونِ ثلاثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہکَیْفَمَا اتَّفَقَ جس سے چاہا مسئلہ دریافت کرلیا اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں، یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اُس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصر ان چار میں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں، وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔‘‘ اس مکتوب میں اس سے قبل مولانا تھانوی نے یہ لکھا ہے ، یہ بھی بڑا قابل عبرت ہے، لکھتے ہیں: ”تقلید شخصی کہ عوام میں شائع ہو رہی ہے اور وہ اس کو علماً اور عملاً اس قدر ضروری سمجھتے ہیں کہ تارکِ تقلید سے، گو کہ اس کے تمام عقائد موافق کتاب و سنت کے ہوں، اس قدر بغض و نفرت رکھتے ہیں کہ تارکین صلاۃ فساق و فجار سے بھی نہیں رکھتے اور خواص کا عمل و فتویٔ وجوب اس کا مؤید ہے۔‘‘ مولانا تھانوی ایک اور مقام پر تقلید و عدم تقلید کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”بعض مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا و مصیب وجوباً و مفروض الاطاعت تصور کرکے عزم بالجزم کیا، کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بہ جز قیاس امرِدیگر نہ ہو، پھر بھی بہت سی علل و خلل حدیث میں پیدا کرکے، یا اس کی تاویل بعید کرکے حدیث کو رد کریں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالیٰ {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ} اور خلاف وصیت ائمۂ مرحومین کے ہے۔‘‘ اس قسم کی تقلید جامد کو، جس کا تذکرہ مذکورہ اقتباسات میں کیا گیا ہے ، مولانا محمود الحسن نے بھی کفر سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ وہ ’’ایضاح الادلہ‘‘ میں تقلید کے اثبات پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: