کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 559
قَالُوا: وَاللّٰهِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ. قَالَ: وَکَمْ مِنْ مُرِیدٍ لِلْخَیْرِ لَنْ یُصِیبَہُ) [1] ”یعنی اے امت محمدیہ! تمھیں کیا ہو گیا کس قدر جلدی بربادہو رہے ہو۔ ابھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تم میں بکثرت موجود ہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور برتن ٹوٹنے نہیں پائے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ کیا تمہار امسلک زیادہ ہدایت والا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین یا کیا تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ تو محض خیر ہے ۔ جواباً فرمایا کتنے ہی وہ لوگ ہیں جو خیر کو چاہتے ہوئے بھی اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘ لہٰذا ماثورہ ادعیہ کے ساتھ یادِ الٰہی کی کیفیت وہی ہونی چاہیے جس کی تصریح کتاب ھدی میں بایں الفاظ موجود ہے: {اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَ قَعُوْدًا وَ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ …} (آل عمران:191) ’’جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہرحال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘ یہاں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض روایات میں وارد ہے : (مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا یَذْکُرُونَ اللّٰهَ فِیہِ إِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ، وَتَغَشَّتْہُمُ الرَّحْمَۃُ، وَتَنَزَّلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ، وَذَکَرَہُمُ اللّٰهُ فِیمَنْ عِنْدَہُ۔) [2] ”یعنی جب کوئی قوم کسی مجلس میں اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے ان کا احاطہ کر لیتے ہیں اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر تسلی نازل ہوتی ہے۔ اور ان کا ذکر خیر جو اللہ کے پاس ( ملائکہ) ہیں ان میں ہوتا ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی تفسیر ’’صحیح مسلم ‘‘کی حدیث میں یوں ہے: (وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللہِ، یَتْلُونَ کِتَابَ اللہِ، وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمِ السَّکِینَۃُ، وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ، وَذَکَرَہُمُ اللّٰهُ فِیمَنْ عِنْدَہُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ، لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہ) [3] ”یعنی جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر یعنی مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر آپس میں کتاب اللہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان کا تذکرہ جو اللہ کے پاس ہیں ان میں ہوتا ہے۔“
[1] ۔ فتح الباری، :4/488،489