کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 556
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، دَم میں پھونکنے سے مقصود اس رطوبت اور ہوا سے برکت کا حصول ہے جو ذکر کی معیت میں نکلتی ہے جس طرح لکھے ہوئے ذکر کے دھوؤں سے تبرک کیا جاتا ہے۔ نیز اس کا مقصد نیک شگون لینا بھی ہو سکتا ہے جس طرح کہ دَم کرنے والے سے سانس الگ ہو رہی ہے اسی طرح مریض سے تکلیف اور مرض دُور ہو جائے۔ [1] اور صاحب ’’تیسیر العزیز الحمید‘‘(ج:1،ص:166) فرماتے ہیں، دَم طبِّ ربانی ہے پس جب مخلوق میں سے نیک لوگوں کی زبان سے دَم کیا جائے تو اللہ کے حکم سے شفاء ہو جاتی ہے۔ اور علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، دَم کرتے وقت پھونک مارنے سے منہ کی رطوبت ، ہوا اور سانس سے مدد لی جاتی ہے جو ذکر، دُعا اور مسنون دَم کے ساتھ نکلتی ہے اس لیے کہ دَم پڑھنے والے کے دل اور منہ سے نکلتا ہے پس جب یہ دَم باطنی اجزاء میں سے رطوبت ، ہوا اور سانس کے ساتھ مل جائے تو تاثیر کے لحاظ سے مکمل اور عمل کے لحاظ سے قوی ہو جاتا ہے اور ان کے مجموعے سے ایسی مجموعی کیفیت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مختلف دوائیوں کے باہم ملانے سے ہوتی ہے۔[2] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے والد کو مریضوں کے لیے تعویذ لکھتے دیکھا اپنے اہل خانہ اور اہل قرابت کو تعویذ لکھ دیتے۔ اور عسر ولادت کی بناء پر عورت کو چاندی کے برتن یا لطیف چیز پر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی تعویذ لکھ دیتے۔[3] ابن عباس رضی اللہ عنھما کے تعویذ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:8،ص:27۔ نیز مروی ہے حضرت لیث رحمۃ اللہ علیہ اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیمار کو قرآن کی آیت لکھ کر پلانے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے۔[4] قرآنی آیات اور ثابت شدہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ لکھنا اگرچہ جائز ہے لیکن میرے نزدیک راجح اور محقق بات یہ ہے کہ تعویذوں سے مطلقاً پرہیز کیا جائے۔ صرف ثابت شدہ دَم پر اکتفاء کی جائے ، اس بارے میں میرے قلم سے تفصیل ’’الاعتصام‘‘ میں چند ماہ قبل ہو چکی ہے۔ نماز میں باقاعدگی کے لیے کوئی دعا یا دَم یا وظیفہ بتائیں؟ سوال۔ میرے بھائی کا ایک بیٹا 15 سال کا ہے اور دو بیٹیاں 8۔10 سال کی ہیں۔ ہمارا سارا گھرانہ حتی کہ دونوں بچیوں تک نماز پانچ وقت باقاعدگی سے پڑھتی ہیں لیکن میرا بھتیجا جو 15 سال کا ہے۔ نماز باقاعدگی سے نہیں پڑھتا۔ دن میں