کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 552
اس طرح جادو کا توڑ کیا جاتا ہے۔ پڑھنے والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک عامل سے یہ کہا گیا کہ یہ تو غیب کی باتیں ہیں۔ اس کا جواب تھا کہ ایسا کرنا قرآن کی رو سے صحیح ہے۔ دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھی: (اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ ٰطٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ) (الاعراف:201) ”بے شک جو اللہ سے ڈرتے ہیں جب انھیں شیطان کی طرف سے وسوسہ آئے تو وہ آگاہ ہوجاتے ہیں تو ناگہانی دیکھنے والے ہوجاتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ( فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ )(الاعراف:201) کا معنی ہے کہ وہ جنات کو دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ محترم برائے مہربانی فرمائیں کہ کیا ایسا عمل درست ہے؟ کیا یہ کہانت تو نہیں جو منع ہے؟ اگر یہ کہانت ہے تو کیا ایسے بندے کے پاس کسی بھی دم کے لیے جانا درست ہے؟ (عثمان بھٹہ) (16 مئی 2008ء) جواب۔طریقہ حاضرات خود ساختہ عمل ہے شرع میں اس کا کوئی ثبوت نہیں اور اس عمل کے لیے قرآنی آیت سے جواز کا استدلال بلا محل ہے۔ اور آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے: متقی کہتے ہیں شرع کی پابندی کرنے والے کو یعنی امر کے مطیع اور نہی کے تارک کو۔ مطلب یہ ہوا کہ جب متقیوں کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پہنچتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ ثواب اور وعید عذاب کو یاد کرتے ہی اپنا قصور اور شیطان کا فریب دیکھ کر فوری طور سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔ (حواشی مفسر قرآن مولانا عبدالستار محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ) کتاب وسنت میں وارد مسنون دعاؤں میں ہی ساری خیر وبرکت ہے۔ انہی پر اکتفاء کرنی چاہیے۔ واللہ ولی التوفیق۔ کیا جن شکل تبدیل کر سکتا ہے ؟ سوال۔ کیا جن انسانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ یا تکلیف دے سکتے ہیں؟ ان سے چھٹکارے کا کیا طریقہ ہے؟(حذیفہ مبشر بن محمد بلال، انجینئر واپڈا، کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ)(22ستمبر1995ء) جواب۔ جنات اجسام لطیفہ سے عبارت ہیں۔ ان میں مختلف شکلیں اختیار کرنے کی قوت موجود ہے۔ کتب ِ احادیث میں متعدد واقعات اس بات کے موید ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حفظ زکوٰۃ رمضان کے تحت فرماتے ہیں: (وَاَنَّہٗ قَدْ یَتَصَوَّرُ بِبَعْضِ الصُّوَرِ فَتُمْکِنَ رُؤْیَتُہٗ وَ اَنَّ قَوْلَہٗ تَعَالٰی، إِنَّہٗ یَرَاکُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثَ لَا تَرَوْنَھُمْ، مَخْصُوْصٌ بِمَا اِذَا کَانَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ الَّتِیْ خُلِقَ عَلَیْھَا)[1]
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ مَا جَاء َ فِی العِلْمِ وَقَوْلِہِ تَعَالَی { وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا } (طہ:114)