کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 55
”جس نے رسول کی اطاعت کی بلاشبہ اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
یہ بلند مقام اللہ کے رسول کے علاوہ کسی اور کو حاصل ہے ؟ نہیں، یقینا نہیں۔ اور اللہ نے اپنے رسول کو یہ بلندمقام اس لیے دیا ہے کہ وہ اللہ کا نمائندہ ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ اس کی براہِ راست حفاظت و نگرانی بھی فرماتا ہے اور اسے راہِ راست(صراطِ مستقیم) سے اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتا۔(دیکھئے سورۃ الاسراء: 17/73،74 و نحوھا من الایات) یہ مقامِ عصمت بھی اللہ کے رسول کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں۔ ائمہ کی تقلید کو لازم قرار دینے والے کیا یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے امام کو یہ مقامِ عصمت حاصل ہے؟ اس کی رائے میں غلطی کا امکان نہیں ہے؟ اس کا ہر قول اور ہر اجتہاد صحیح ہے؟ یقینا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے ، تو پھر ہر مسئلے میں کسی ایک ہی شخص کی بات کو بلادلیل ماننے کو لازم قرار دینا،(جسے اصطلاحاً اور عرفاً تقلید کہا جاتا ہے) کیا یہ اس کے لیے غیر مشروط اطاعت کا حق تسلیم کروانا اور اسے مقامِ عصمت پر فائز کرنا نہیں ہے؟
3۔ یہاں سے اس تیسرے سوال کا جواب، کہ یہ حضرات یہ روش چھوڑنے کے لیے کیوں تیار نہیں؟ سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ گویا اپنی زبانوں سے عصمت ِ ائمہ کا اظہار یا دعویٰ نہیں کرتے لیکن عملاً صورت حال یہی ہے کہ انھوں نے ائمۂ کرام کو ائمہ معصومین کا درجہ دے رکھا ہے۔ اپنے امام کی ہر بات کو {مَا أَنْزَلَ اللَّهُ} کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تسلیم کرتے ہیں اور اپنی خود ساختہ فقہوں کے مقابلے میں حدیث رسول سے اعراض و گریز ، ان کا وطیرہ اور شیوۂ گفتار ہے۔
ان کا یہ طرزِ عمل و فکر محدثین کے منہج و مسلک سے یکسر مختلف ہے، شیوۂ مسلمانی کے برعکس ہے اور امت کی فکری وحدت و یک جہتی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا ہے۔
ان حضرات کے بارے میں ہماری بات کوئی مفروضہ یا واہمہ نہیں، ایک حقیقتِ واقعہ ہے ، شک و شبہ سے بالا ہے اور روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ جس کا مشاہدہ صدیوں سے ہو رہا ہے اورہردور کے اہل علم نے اس کااظہار کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کی بابت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اہل تقلید سے کوئی مخاصمت رکھتے تھے، بلکہ پاک و ہند کے وابستگانِ تقلید تو اپنے آپ کو مسند ولی اللہ ہی کے جانشین اور فکر ولی اللہ کے وارث سمجھتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی کتابوں میں متعدد جگہ اہل تقلید کے مذکورہ رویے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے اتباع رسول کے تقاضوں سے صریح انحراف اور ائمۂ کرام کومعصوم ماننے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیل شاہ صاحب کی کتابوں (التفہیمات الالھیة، حجة اللّٰہ االبالغة)اور العقد الجید وغیرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اہل تقلید کے اس رویے کے بارے میں خود اکابر علماے احناف نے بھی اسی قسم کے تأثرات کا اظہار کیا ہے۔
اہل علم ان سے باخبر ہیں تاہم یہاں مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے بھی دو اقتباسات پیش کرنے مناسب معلوم