کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 546
کہیں یہ بدعت تو نہیں؟ قرآن وسنت سے وضاحت فرمائیں۔ (امام مسجد مبارک اہل حدیث، لاری اڈا چونیاں) (12/ دسمبر 2003ء) جواب۔ قرآنِ مجید یا بخاری شریف وغیرہ کے اختتام پر وعظ و نصیحت کا اہتمام محض یاددہانی، نصیحت اور اصلاح کی خاطر ہوتا ہے کہ جن عظیم کتابوں کوختم کیا گیا ہے عملی زندگی کو بھی ان کی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کرنی چاہیے۔ حضرت انس سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن مجید کے ختم کے موقع پر اپنے اہل و عیال کو اکٹھا کرکے وہ دعا کرتے تھے لیکن اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شئے ثابت نہیں۔ اور اسی طرح بعض تفاسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ ’’سورہ بقرہ‘‘ ختم کرنے پر انھوں نے دس اونٹ ذبح کیے اس سے معلوم ہوا ایسے مواقع پر اگر کوئی شخص خوشی کا اظہار کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم اس کو لازم نہیں کرلینا چاہیے اور نہ لازم سمجھناہی چاہیے جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں کی عادت ہے، وہ ان امور کے اہتمام کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ جہاں تک عالم پر قراء ت کا تعلق ہے سو یہ بات واضح طور پر قصہ ضمام بن ثعلبہ سے ثابت ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَاحْتَجَّ بَعْضُہُمْ فِی القِرَاء َۃِ عَلَی العَالِمِ " بِحَدِیثِ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ: قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: آللّٰهُ أَمَرَکَ أَنْ تُصَلِّیَ الصَّلَوَاتِ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَہَذِہِ قِرَائَ ۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ ضِمَامٌ قَوْمَہُ بِذَلِکَ فَأَجَازُوہُ) [1] مذکورہ دلائل کی روشنی میں عمل ہذا کا جواز معلوم ہوتا ہے لہٰذا اسے بدعت قرار دینا درست نہیں۔ ختم قرآن یا ختم بخاری شریف کے موقع پر مٹھائی یا کھانا کھلانا سوال۔ ختمِ قرآن، ختم بخاری شریف وغیرہ یا کسی کتاب کی تکمیل پر جشن منانا اور کھانا کھلانا کیسا ہے ؟ جواب۔ بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ’’سورۃ البقرۃ‘‘ ختم کی تو دس اونٹ راہ للہ ذبح کر ڈالے۔ اس سے معلوم ہوا کسی دینی کتاب کے اختتام پر کھانا کھلانا یا شیرینی وغیرہ بانٹ دی جائے تو کوئی حرج نہیں کسی حد تک یہ شئے طبعی اور قدرتی خوشی میں بھی داخل ہے۔ البتہ اس فعل کو ضروری سمجھ کر اس کا اہتمام و التزام کرنا سلف سے ثابت نہیں۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ) قرآن سنانے کے بدلے میں تحائف کی وصولی سوال۔ ’’ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جس آدمی کو
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ جَمْعِ القُرْآنِ،رقم: 4987