کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 543
سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) ختم قرآن پر بسند صحیح کوئی مخصوص دعا منقول ہے ؟ سوال۔ قرآنِ کریم ختم کرنے پر ’’سورۃ الناس‘‘ کے بعد ہر مصحف پر ایک مختصر دعا(اَللّٰہُمَّ اِنس وَحْشَتِی… یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ)اور کئی مصاحف پر ایک بہت طویل دعا (ا)، (ب) سے ی تک شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے درج ہوتی ہے۔ کیا یہ دعائیں(پہلی خصوصاً) صحیح حدیث سے ثابت ہے یا ویسے ہی درج ہیں؟ اور کیا یہ پڑھنی چاہئیں؟ (پروفیسر سعید احمد لکھوی) (23 جون 2000ء) جواب۔ قرآنِ مجید کے ختم کرنے پر بسند صحیح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مخصوص دعا ثابت نہیں۔ علامہ محمد عبدالسلام حضرت الشقیری فرماتے ہیں: ( وَالدُّعَائُ الََّذِیْ فِیْ آخِرِ الْمَصَاحِفِ لَا یَجُوْزُ التَّعَبُّد بِہِ قَطْعًا بَلْ ہُوَ مَذْمُوْمٌ مَصْنُوْعٌ شَرْعًا لِاَنَّہُ مُخْتَرَعٌ وَ لَیْسَ مَاثُوْرًا… الخ ۔) ”قرآن کے اخیر میں جو دعا طبع کی جاتی ہے اس کے ذریعہ عبادت کرنا ناجائز ہے۔ بلکہ خود ساختہ ہونے کی وجہ سے یہ شرعاً مذموم اور ممنوع ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں۔ بلکہ یہ سب بدعت، گمراہی اور من گھڑت توسّل ہے۔اس کی قراءت حلال نہیں اور نہ ہی مصاحف کے اخیر میں اس کی کتابت جائز ہے۔ قرآن و سنت کا فی و شافی ہیں۔ اللہ رب العزت نے سفہاء کی کم عقلی بیان کرتے ہوئے فرمایا: (اَوَ لَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ) (العنکبوت: 51) ”کیا ان لوگوں کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے کچھ شک نہیں کہ مومن لوگوں کے لیے اس میں رحمت اور نصیحت ہے۔‘‘ [1] علامہ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ختمِ قرآن پر کوئی معین دعا وارد نہیں لہٰذا آدمی کے لیے جائز ہے کہ نفع بخش دعاؤں میں سے جو چاہے پڑھ لے۔ مثلاً گناہوں کی بخشش طلب کرنا، جنت کا سوال، آگ سے نجات، فتنوں سے پناہ چاہنا اور فہم ِ قرآن کی توفیق مانگنا، اس کے ساتھ ساتھ قرآن پر عمل اور اس کے حفظ کی دعا کرنا اور اس قسم کی دیگر دعائیں کرنا جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ختم ِ قرآن پر وہ ، اپنے اہل و عیال کو جمع کرکے دعا کرتے اور جہاں تک مجھے علم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کوئی شے وارد نہیں اور جو دعاء شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے ،
[1] ۔ فتح الباری:8/707 [2] ۔ سنن الدارمی،بَابُ لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِکَاحٍ،رقم:2312،سنن الدارقطنی،بَابٌ فِی نَہْیِ الْمُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْقُرْآنِ،رقم:437 [3] ۔ المستدرک للحاکم،رقم:6051، السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابُ نَہْیِ الْمُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْمُصْحَفِ،رقم:408