کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 54
کی روشنی میں صحیح قرار پائے ، اسے مان لیا جائے اورجو ضعیف قرار پائے، اسے ناقابل استدلال تسلیم کیا جائے۔ محدثین کا یہی اصول اور منہج ہے اور یہی منہج یا طرزِ فکر و عمل امت ِ مسلمہ کے باہمی اختلافات کے ختم یا کم سے کم کرنے کا واحد طریقہ یا اس کا ضامن ہے۔ اس کے برعکس رویہ کہ صحت ِ سند کے باوجود اپنی ہی یاکسی مخصوص فقہی رائے ہی کو ماننا اور ضعف ِ سند کے باوجود ضعیف حدیث ہی کو ترجیح دینا، اسے نہ حدیث ِ رسول کو ماننا ہی تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس طریقے سے فقہی اختلافات اور حزبی تعصبات کا خاتمہ ہی ممکن ہے، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان متحد ہوں، فکر و عمل کی یک جہتی ان کے اندر پیدا ہو اور دشمن کے مقابلے میں وہ بنیانِ مرصوص بن جائیں۔ اور ایسا ہونا فقہی و حزبی اختلافات و تعصبات کی شدت ختم ہوئے بغیر ممکن نہیں۔
غیر محدثانہ روش اوراس کے نقصانات:
یہ غیر محدثانہ رویہ، جس نے امت ِ واحدہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے ، کن لوگوں نے اپنایا ہوا ہے؟اور کیوں اپنایا ہوا ہے ؟ اور اسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار کیوں نہیں ہیں؟ ان تینوں سوالوں کا جواب واضح ہے:
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے محدثین کی روش سے انحراف کیا ہے جو خالص اور ٹھیٹھ اسلام کی آئینہ دار اور(مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي)کی مصداق تھی اور ہے۔
1۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ انھوں نے اپنے آپ کو کسی ایک فقہی مذہب سے وابستہ کر لیا جس کا اللہ نے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً حکم نہیں دیا۔ اتباع کے بجائے، انھوں نے ابتداع(اپنی طرف سے شریعت سازی) کا اور اطاعت کے بجائے تقلید کا راستہ اختیار کیا۔
اتباع کیا ہے اور ابتداع کیا؟
اتباع کا مطلب ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگنا، کیونکہ صرف وہی اللہ کا نمائندہ ہے، اللہ نے اسی کے اتباع کا حکم دیا ہے ۔ اور ابتداع یہ ہے کہ اس اتباعِ رسول سے تجاوز کرکے اپنی طرف سے کسی چیز کو واجب قرار دینا، جیسے کسی نہ کسی امام کی تقلید یا خود ساختہ فقہ کی پابندی کو لازم سمجھنا اور لازم قرار دینا۔ امتیوں کو تو اتباع کا حکم ہے نہ کہ ابتداع کا۔ اور اطاعت کا مطلب بھی صرف (مَا أَنْزَلَ اللَّهُ) (اللہ کی نازل کردہ باتوں) کا ماننا ہے۔ ہم اللہ کے رسول کی اطاعت و اتباع بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسول کی بھی غیرمشروط اطاعت کا حکم دیا ہے۔ غیر مشروط اطاعت کا یہ حق صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، مخلوق میں سے کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں۔ اسی لیے اللہ نے اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔
(وَمَن يُطِعِ اللّٰه وَالرَّسُولَ) (النسا:4/80)