کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 538
اور حضرت سعد نے مسِ مصحف کے لیے اپنے بیٹے کو وضوء کا حکم دیا تھا۔ پھر جمہور اہل علم کی رائے بھی یہی ہے۔ ہاں البتہ بعض اہل علم نے بچوں کوبلا وضوء مس کی اجازت دی ہے اس لیے کہ وہ غیر مکلف ہیں۔ جب کہ بعض اس بات کے قائل ہیں کہ وضوء کرنا ضروری ہے۔ بہر صورت احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کوبھی وضوء کرنا چاہیے تاکہ اکرامِ مصحف ان کے ذہنوں میں راسخ ہویا پھر حائل (پردہ) کے ساتھ مسِّ مصحف ہوتوباوضوء اور بے وضوء سب کے لیے جائز ہے۔ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کے تلف کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ سوال۔ قرآن کے ضعیف پرزوں کو تلف کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ نیز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جلانے کے فعل کی دلیل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ ؟ دفن کرنا یا دریابُرد کرنا کیساہے؟ (سائل) (8نومبر1996ء) جواب۔ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق یا پُرزوں کو کسی محفوظ مقام پر دفن کردیاجائے یا کسی کنوئیں یا نہر وغیرہ میں ڈال دیا جائے یا اوراق کو دھو ڈالا جائے۔ فتنے کا ڈر نہ ہو تو جلانے کا بھی جواز ہے۔ چنانچہ اسماعیلی کی روایت میں ہے:(أَنْ تُمْحَی أَوْ تُحْرَقَ)یعنی ’’اوراق کو تلف کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔‘‘ شارح’’صحیح بخاری‘‘ابن بطال نے کہا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن کتابوں میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو ان کو آگ سے جلا دینا جائز ہے۔ اور اس میں ان کا اکرام ہے اور پاؤں کے نیچے آنے سے بچاؤ ہے۔ طاؤس نے کہا جن چٹھیوں میں ’’بسم اللہ‘‘ لکھی ہوتی تھی انھیں اکٹھا کرکے جلا دیا جاتا تھا۔ عروہ نے بھی اسی طرح کیا۔ البتہ ابراہیم نے اس فعل کو مکروہ سمجھا ہے۔[1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل حفاظت ِ قرآن کی نصوص کے پیش نظر تھا۔ اسی بناء پر فعل ِ ہذا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی مستحسن سمجھا تھا۔[2] متبرک اوراق کو جلانے کا حکم سوال۔ عرض ہے کہ ہمارے گاؤں ’’سوکن ونڈ‘‘ کے گورنمنٹ رضائے مصطفی ہائی سکول کے ایک اُستاد نے چھٹی جماعت کے ٹیسٹ پیپرز گائیڈ یعنی امدادی کتب ( جو سکول میں لانا منع ہیں۔ جن میں دینیات و عربی میں قرآنی آیات موجود ہیں) بچوں سے اکٹھی کرکے (جن کی تعداد تقریباً 50ہے) مٹی کا تیل ڈال کر جلا دیں۔ اس کے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟ کیا استاد کو قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی سزا دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ مسئلہ کی وضاحت فرمادیں۔
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ قِرَاء َۃِ الرَّجُلِ فِی حَجْرِ امْرَأَتِہِ وَہِیَ حَائِضٌ،رقم: 297 [2] ۔ سنن ابی داود،بَابُ اسْتِحْبَابِ التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاء َۃِ،رقم:1464،سنن الترمذی،رقم:2914،و صححہ