کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 533
ٹیک لگا کر تلاوتِ قرآن مجید کا حکم سوال۔ کیا قرآنِ مجید کی تلاوت ٹیک لگا کر یا تکیہ رکھ کر کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ بوجہ تھکاوٹ و سستی کے؟ (ایک سائل از منڈڑیاں تحصیل ایبٹ آباد) (۱21 اپریل 1996ء) جواب۔ ٹیک وغیرہ لگا کر قرآنِ مجید کی تلاوت کا کوئی حرج نہیں ، جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: (کَانَ یَتَّکِیُٔ فِی حِجْرِی وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ یَقْرَأُ القُرْآنَ) [1] ”یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں ٹیک لگاتے اور میں حیض والی ہوتی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت فرماتے۔‘‘ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا شرعاً فرض ہے یا مستحب؟ سوال۔ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا شرعاً فرض ہے یا مستحب؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت سے جواب دیں۔ (السائل: ع۔ح۔ فیصل آباد) (6 مارچ 1998ء) جواب۔ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھنا حتی المقدور ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا) (المزمل:4) ”اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔“ ضحاک نے کہا ترتیل یہ ہے کہ ایک ایک حرف کو علیحدہ علیحدہ پڑھا جائے۔ اور حدیث میں ہے: ( یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآٰنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا) [2] اسی طرح’’صحیح بخاری‘‘اور ’’ابوداؤد‘‘ میں مدِّ صوت کا بھی ذکر ہے اور بعض روایات میں ترجیع کا بھی تذکرہ ہے۔ ”ض‘‘ کو ’’دواد‘‘ پڑھنا کیسا ہے ؟ سوال۔ کچھ لوگ ’’ض‘‘ کو ضادّ کے بجائے ’’دواد‘‘ پڑھتے ہیں، وضاحت کریں۔ کیونکہ قرآن میں کئی مقام پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا اس کی غلطی سے مفہوم بھی بدل سکتا ہے ؟(محمد مسعودP.P، کوٹلی، آزاد کشمیر)(29 دسمبر2000ء) جواب۔ اصل بات یہ ہے کہ ’’ضاد‘‘ اور ’’ظاء‘‘ دونوں قریب المخرج ہیں۔ زبان کی کروٹ(کنارہ) جب اُوپر کی داڑھوں کی جڑ سے لگے تو وہاں سے ’’ض‘‘ نکلے گا۔ اور اگر زبان کی نوک ثنایا علیا(اوپر کے دو درمیان والے دانتوں ) کے کنارے سے لگے تو ظاء نکلتا ہے۔ پھر دونوں حروف صوتی صفات کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں(یعنی حروفِ مجہورہ، رخوہ،