کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 532
قرائت کرنا اور بعض آیات پر وقف نہ کرنا بھی ثابت ہے۔ (السائل: ع۔ح۔ فیصل آباد) (6 مارچ 1998ء) جواب۔ ہر آیت کو جدا جدا پڑھنا چاہیے۔ ملاحظہ ہو ’’سنن ابی داؤد‘‘۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (قُلْتُ وَ ھٰذِہِ سُنَّۃٌ اَعْرَضَ عَنْہَا جَمْہُوْرُ القُرَّاء فِی ھٰذِہِ الْاَزْمَان فَضْلًا عَنْ غَیْرِہِمْ) [1] ”یعنی اس سنت سے اکثر قاریوں نے منہ موڑ رکھا ہے، چہ جائیکہ دیگر اس کا لحاظ رکھیں۔‘‘ اور بعض آیات پر وقف نہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ تلاوتِ قرآن کس طرح کی جائے؟ سوال۔ محترم حافظ صاحب۔ السلام علیکم! کیا قرآن کی صرف تلاوت ہی کی جا سکتی ہے یا اسے غوروفکر کے نقطۂ نظر سے عام کتاب کی طرح خاموشی سے بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ آدمی کے ہونٹ نہ ہلیں۔ اکثر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے دوسری کتابوں کی طرح خاموشی سے بار بار پڑھا جائے کہ الفاظ کے معنی بھی سمجھ میں آئیں۔ میری عادت ہے کہ اونچی آواز سے یا لب ہلا کر پڑھنے سے سمجھ نہیں آتی۔ اور فقرے (آیات) ذہن نشین نہیں ہوتے۔ ازراہِ کرم تفصیل سے روشنی ڈالیں۔ (احمد فیاض۔ گوجرانوالہ) (24دسمبر1999ء) جواب۔ قرآن مجید کی تلاوت بہ آوازِ بلند اور آہستہ دونوں طرح درست ہے۔ لیکن آہستہ سے مراد یہ نہیں کہ ہونٹ بھی ہلنے نہ پائیں۔ بلکہ آہستہ کم از کم اتنا ہونا چاہیے کہ قراء ت آدمی کے دونوں کانوں کو سنائی دے اور دل اس کو یاد کرے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ہے: (فَاقْرَأْ قِرَاء َۃً تُسْمِعُہَا أُذُنَیْکَ وَیُوعِیْہَا قَلْبُکَ) [2] پھر قراء ت کے اوصاف میں سے ترتیل، ترجیع، حسن صوت اور مد قراء ت وغیرہ ہے۔ ان اشیاء کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اپنے ہونٹوں کو حرکت میں نہ لائے۔ ان صفات کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں متعدد ابواب قائم کیے ہیں۔ کوشش کریں کہ بوقت ِ تلاوت ہونٹوں میں حرکت پیدا ہو۔ عادت بن گئی تو آسانی سے یاد بھی ہو جائے گا اور معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لیے غوروتدبر ہی مطلوب ہے ۔ جس کی کوئی سی صورت بن سکتی ہے۔