کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 53
کی روشنی میں فتویٰ نہ دے، کیونکہ وہ کسی خاص فقہ یا امام کا نمائندہ نہیں، بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب افتاء کا جانشین ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا فتویٰ صرف اور صرف اللہ و رسول کے بتائے ہوئے احکام اور شریعت کے اصول و ضوابط کے دائرے میں ہو، نہ کہ اس سے متجاوز ہو۔ 3۔ مفتی کے اندر فقہی جمود نہیں، بلکہ فقہی توسع ہو، کیونکہ نئے نئے مسائل میں عوام کو سہولت اسی وقت مل سکتی ہے جب مفتی فقہی جمود سے پاک اور اسلاف کے علمی ذخیرے سے بلا تعصب استفادہ کرنے کا قائل ہو۔ ورنہ وہ قرآن و حدیث کی نصوص کو بھی نظر انداز یا ان کی دو راز کار تاویل کرے گا اور عوام کی سہولت کی بھی اسے پرواہ نہ ہوگی۔ یوں وہ اپنے فتویٰ میں اَوفق بالکتاب والسنۃ کا اہتمام کرے گا اور نہ ارفق بالناس ہی کا۔ جب کہ یہ منصب ان دونوں ہی باتوں کا متقاضی ہے۔ علماے اہل حدیث کا امتیاز: الحمد للہ علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ مذکورہ خصوصیات اور منہج محدثین ہی کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ انہی کی تدریسی، تبلیغی اور علمی خدمات کے نتیجے میں برصغیر پاک و ہند میں فقہی و تقلیدی جمود ٹوٹا اور عمل بالحدیث کو فروغ حاصل ہوا، اس لیے اہل حدیث میں شخصیت پرستی ہے نہ اکابر پرستی اور نہ ہی کسی ایک فقہ کی پابندی پر زور۔ ان کے عوام بھی کسی مسئلے میں علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصد صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا حل معلوم کرنا ہوتا ہے اور علماء بھی اپنی فہم کی حد تک سوال کا جواب دیتے وقت قرآن و حدیث کے دائرے سے تجاوز نہیں کرتے ۔ بنابریں منصب افتاء کی اہمیت کو صرف علماے اہل حدیث ہی سمجھتے اور اس کے تقاضوں کو بھی وہی ادا کر تے ہیں۔ كَثَّرَ اللّٰهُ سَوَادَهُمْ یہی وجہ ہے کہ محدثین اور ان کے فکر و عمل کے وارث عاملین بالحدیث کے علاوہ،سب ہی گروہ حدیثِ رسول کو اُس طرح شرح صدر کے ساتھ قبول کرتے ہیں، نہ قبول کرنے کے لیے تیار ہی ہیں، جس طرح کہ اس کے ماخذ ِ شریعت ہونے کا تقاضا ہے، جب کہ صحیح گروہ وہی ہو سکتا ہے جو احادیث ِ صحیحہ کو ذہنی تحفظ کے بغیر قبول کرے اور اس پرعمل کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر حدیث واقعی ماخذ ِ شریعت ہے ، یعنی اسے تشریعی اور تقنینی حیثیت حاصل ہے( اور بلاشبہ اسے یہ مقام اور حیثیت حاصل ہے) تو پھر ہر فرقے کا اپنے ذہنی تحفظات اور مخصوص فقہی استنباطات واجتہادات کو اہمیت دینا اور حدیث کو بہ لطائف الحیل نظر انداز کردینا یا کسی نہ کسی خوش نما خانہ ساز اصول کے ذریعے سے اسے مسترد کردینا، اسے کس طرح مستحسن قرار دیا جا سکتاہے ؟ یا کس طرح اسے حدیث ِ رسول کو ماننا تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟ حدیث ِ رسول کو ماخذ ِ شریعت ماننے کا مطلب اور تقاضا تو یہ ہے کہ جو حدیث ، محدثانہ اصولِ جرح و تعدیل