کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 52
تقدیم
منصب افتاء کی اہمیت ،تقاضے اوراس میں اہل حدیث کا امتیاز
(از… حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ)
فَتْوٰی کے معنی (جسے فُتْیَا بھی کہا جاتا ہے) اظہارِ رائے اور وضاحت کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ وضاحت ہوتی ہے جس میں کسی پیش آمدہ مسئلہ، واقعہ یا اِشکال کی بابت شرعی حکم بیان کیا جاتا ہے۔ گویا شریعت کی روشنی میں کسی اشکال کا حل پیش کرنا، کسی مسئلے کی وضاحت کرنا اور کسی واقعے کی بابت جواز یا عدمِ جواز کی تشریح کرنا ’’فتویٰ‘‘ کہلاتا ہے۔
عہد ِ رسالت میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے سامنے کوئی ایسا واقعہ یا اشکال پیش آتا، جس کی بابت ان کو شریعت کا حکم معلوم نہ ہوتا، تو صحابہ رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے، تب اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں اس کی وضاحت فرما دیتا یا وحیٔ الٰہی کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب عنایت فرما دیتے۔
اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی مفتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صاحب افتاء تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی بابت یہ الفاظ موجود ہیں: { قُلِ اللّٰه يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ } (النسا:127) ’’اللہ تعالیٰ تمھیں ان عورتوں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (جن کی بابت تم نے استفسار کیاہے)‘‘{ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ } (النسا:176) ’’اللہ تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے پوچھنے پر بہت سے احکام و مسائل بیان فرمائے ، یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فتوے ہوئے۔ یہ فتوے احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔
اس تفصیل سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں:
1۔ مفتی کو قرآنی احکام کا بھی پورا علم ہونا چاہیے اور ذخیرۂ احادیث پر بھی اس کی نظر گہری اور وسیع ہونی چاہیے، علاوہ ازیں اسے مجتہدانہ بصیرت بھی حاصل ہو، تاکہ ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کر سکے، کوئی نص صریح نہ ہو تو قرآن و حدیث کے نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا فیصلہ کر سکے۔
2۔ وہ کسی حالت میں بھی قرآن و حدیث اور ان کے نظائر سے صرفِ نظر کرکے محض آرائے رجال اور اقوال ائمہ