کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 506
مقصد یہ ہے دونوں دفعہ سلام کہنا مسنون ہے۔ اور جہاں تک مصافحہ کا تعلق ہے ۔ سو اس بارے میں عرض ہے اگر تو رخصت ہونے والا مسافر ہے۔ اس سے مصافحہ کا جواز ہے۔ چنانچہ ترمذی میں حدیث ہے: (کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا وَدَّعَ رَجُلًا أَخَذَ بِیَدِہِ، فَلَا یَدَعُہَا حَتَّی یَکُونَ الرَّجُلُ ہُوَ یَدَعُ یَدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) [1] ”یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو الوداع کرتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اُسے نہ چھوڑتے حتی کہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ کو چھوڑتا۔ پھر مسافر کو رخصت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے۔ (اسْتَوْدِعِ اللّٰهَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَآخِرَ عَمَلِکَ) بظاہر یہ حدیث مسافر سے مصافحہ پر دالّ ہے۔(واللہ اعلم) اور اگر رخصت ہونے والا غیر مسافر ہے تو اس سے مصافحہ کے بارے میں کوئی مرفوع صحیح حدیث ثابت نہیں۔ اور نہ ہی کوئی صحیح اثر موجود ہے۔ لہٰذا مصافحہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مصافحہ صرف ایک ہاتھ سے مسنون ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث وارد ہیں۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں: َٔنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا صَافَحَ الرَّجُلَ لَمْ یَنْزِعْ یَدَہُ مِنْ یَدِہِ حَتَّی یَکُونَ ہُوَ الَّذِی یَنْزِعُ یَدَہُ …) [2] ”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی سے مصافحہ کرتے اپنے ہاتھ کو اُس کے ہاتھ سے جدا نہ کرتے یہاں تک کہ وہ آدمی اپنا ہاتھ جدا کرتا۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: (قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰهِ الرَّجُلُ مِنَّا یَلْقَی أَخَاہُ أَوْ صَدِیقَہُ أَیَنْحَنِی لَہُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَیَلْتَزِمُہُ وَیُقَبِّلُہُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَیَأْخُذُ بِیَدِہِ وَیُصَافِحُہُ؟ قَالَ:نَعَمْ) [3] اور تیسری روایت حدیث الودیع ہے جو پہلے گزر چکی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ۔ کتاب المقالۃ الحسنی فی سنیّۃ المصافحۃ بالید الیمنی للمحدث مبارکپوری رحمہ اللہ۔
[1] ۔ صحیح البخاری ،کَیْفَ کَانَ بَدْء ُ الوَحْیِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟،رقم:7