کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 492
فرمایا: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب مصوروں کو ہو گا۔[1] اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پردے پر بنی ہوئی تصویر کا سختی سے انکار فرمایا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سائے دار یا غیر سائے دار ہر طرح کی تصویر حرام ہے۔ کیمرہ سے بنی ہو یا غیر کیمرہ سے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَالثَّانِیَۃُ تَحْرِیْمُ تَصْوِیْرُہَا سَوَائٌ کَانَتْ مُجَسَمَّۃٍ اَوْ غَیْر مُجَسَمَّۃٍ وِ بِعَبَارَۃٍ اُخْرٰی لَہَا ظِلٌّ اَوْ لَا ظِلَّ لَہَا وَ ہَذَا مَذْہَبُ الْجَمْہُوْرِ قَالَ النُّوَوِیُّ ذَہَبَ بَعْضُ السَّلْفُ اِلٰی اَنْ الْمَمْنُوْع مَا کَانَ لَہٗ ظِلٌّ وَ مَا لَا ظِلَّ لَہٗ فَلَا بَأْسَ بِاِتِّخَاذِہِ مُطْلَقًا وَ ہُوَ مَذْہَبٌ بَاطِلٌ فَاِن الستر الَّذِیْ اَنْکَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَانَت الصُّوْرَۃ فِیْہِ بِلَا ظِل وَ مَعَ ذَالِکَ فَاَمَرَ بِنَزْعِہٖ )[2] مسئلہ تصویر کشی کا حکم سوال۔ میں اگفا (Agfa)کمپنی کے ڈیلر الفا کلر میں سیلز ریپ کا کام کرتا تھا۔ میرا فیلڈ ایریا بھائی پھیرو پتوکی ہے جو کہ ضلع قصور کی تحصیلیں ہیں۔ میرا کام ہے فوٹو گرافروں کے پاس جانا اور جو ان کے پاس گاہک شادی وغمی اور دفتری کاموں میں ریکارڈ میں رکھنے کے لیے تصویریں بنواتے ہیں اور اسی طرح جو لوگ سیر و تفریح پر جاتے ہیں اور تصویریں بنواتے ہیں، یا خود کھینچتے ہیں یاشناختی کارڈ پاسپورٹ اور گھروں میں رکھنے کے لیے بڑی بڑی تصویریں بنواتے ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیں کہ: 1۔ میری کمائی شرعی طور پر حلال ہے یا حرام ؟ 2۔ مجھے یہ کام کرتے رہنا چاہیے یا چھوڑ دینا چاہیے؟ 3۔ اگر چھوڑ دیا ہوا ہے تو دوبارہ کرلینا چاہیے یا نہیں؟ میں نے یہ کام اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ ’’کتاب التوحید‘‘ کے باب نمبر 61 اور صفحہ نمبر 399، 400، 401، میں مسلمانوں کے لیے تصویر جہاں بھی نظر آئے۔ مٹا دینے کا حکم ہے نہ کہ بنوا کر دینے کا۔ )راحیل اکرام پاشا، گلی نمبر 3 ،مکان نمبر سی 54، عزیز پارک اچھرہ لاہور، پوسٹ کوڈ:54600)) (8۔ اپریل1994ء) جواب۔ مذکورہ کاروبار سے اجتناب ضروری ہے۔ احادیث میں تصویر کشی کے مشغلہ کو بدترین جرم قرار دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس فعل سے حاصل شدہ کمائی بھی حرام ہو گی۔