کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 452
ہے۔ اب نہ تو کسی نبی کو آنا ہے اور نہ اب کوئی خلیفہ ہے۔ آج کے دور ناگوار میں ایک اکیلا آدمی برائیوں کے طوفان کے سامنے کیسے سینہ تان کے کھڑا ہوسکتا ہے؟ اس کے لیے ایک بڑی جماعت کی ضرورت ہے جو برائیوں کی روک تھام کرسکے۔ کسی جماعت میں امیر جماعت کی بیعت کے بغیر ڈسپلن قائم ہونا ممکن نہیں۔ تنظیم اسلامی کا ڈسپلن بیعت امیر پر قائم ہے۔ اگر بیعت بدعت ہے پھر تو دنیا میں اسلام کبھی نہیں آسکتا۔ اس کے علاوہ شاہ اسماعیل شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے بھی سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کی تھی۔ اس لیے آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ جواب دیں کہ پھر بیعت کے بغیر (جو آپ کے فتویٰ کی روشنی میں بدعت ہے) ایک اکیلا آدمی کیا کرے؟ (سائل)(3۔اگست 2007ء) جواب۔ جواباً عرض ہے کہ ایک سوال کے جواب میں میں نے مطلق بیعت کو بدعت قرار نہیں دیا تھا بلکہ پیری مریدی اور حزبی اسراری مروجہ بیعت کو بدعت قرار دیا تھا کہ شریعت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم مقام کی حیثیت سے خلیفہ کی بیعت کا تعلق ہے سو یہ برحق ہے۔ بطور مثال میں نے لکھا بھی تھا کہ آج کے دورِ انحطاط میں سعودی سربراہِ حکومت کی بیعت ممکن ہے کیوں کہ وہاں کسی نہ کسی انداز میں شریعتِ الٰہیہ کا نفاذ ہے۔ جزیرۂ عرب میں جب ملک عبدالعزیز حکومت پر متمکن ہوئے تو اس زمانہ میں ہندوستان کے کئی ایک اہل علم ان سے بیعت ہوئے تھے، اس بات کا تذکرہ بالصراحۃ(وضاحت کے ساتھ) سعودی تاریخ میں موجود ہے۔ باقی شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے جو سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کی تھی تو یہ بحیثیت حاکم تھی۔ اس کے عملی ظہور پر تاریخ شاہد ہے اس کے انکار کی چنداں گنجائش نہیں۔ تاہم ہمارے ہاں بعض مدعیان عمل بالحدیث پیری مریدی جیسی بیعت کے تساہلات کا شکار ہیں لیکن اس کو جواز کی دلیل بنا کر پیش کرنا کسی طور صحیح نہیں۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول مشہور ہے: ’’جو شے عہدِ نبوت میں دین تھی وہ آج بھی دین ہے۔ اور جو اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی اور جو شخص دین میں بدعت ایجاد کرتا ہے دراصل اس کا زعم باطل یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام رسانی میں خیانت کی ہے، جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ … ) (المائدۃ:3) نیز فرمایا: (بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ } (المائدۃ: 67) پھر گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے اور عملی زندگی سنوارنے کے لیے بیعت کو شرط قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعی عہد پر اگر غور وخوض کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اہم مواقع پر بیعت لی ہے جب کہ عام حالات میں مجرد عہد وپیمان کو کافی سمجھا ہے۔ حتی کہ نئے مسلمان ہونے والے کے لیے بھی بسا اوقات بیعت کو ضروری نہیں سمجھا گیا،
[1] ۔ صحیح البخاری،کَیْفَ کَانَ بَدْئُ الوَحْیِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟،رقم:1 [2] ۔ صحیح البخاری،کَیْفَ کَانَ بَدْئُ الوَحْیِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟،رقم:1 [3] ۔ صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی : وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ،قبل رقم الحدیث:7369