کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 444
نظریہ ایک ہے تو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر جہاد کیوں نہیں کرتے۔ عوام کے اس سوال کا جواب کیا ہوگا کہ یہ لوگ صرف چندہ ہتھیانے کے لیے تمام کارروائیاں کر رہے ہیں۔ وضاحت سے قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔(ایک سائل) (16 فروری1996ء) جواب۔ جملہ جہادی تنظیموں کو چاہیے کہ یکجا ہو کر ایک پلیٹ فارم پر ایک امیر کی قیادت میں جہاد کریں۔ اسی میں خیروبرکت ہے۔ (وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہِ) [1] جہاں تک موجودہ تشتت و تفرق کی کیفیت کا تعلق ہے۔اس طرح کے جہاد کی عہد خیر القرون میں مثال ملنی صرف ناممکن ہی نہیں بلکہ امر محال ہے کہ بلا قیادتِ عامہ تحزّبیت(گروہوں) میں منقسم ہوکر وہ جہاد کے مقاصد کو پروان چڑھاتے ہوں کیونکہ وہ فرمانِ باری تعالیٰ (وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ) (الانفال:46) اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ(ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا۔‘‘ (سورۃالانفال:46)کو خوب یاد رکھتے تھے اور اس کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آج افغانستان میں ہماری ذلت و رسوائی کا سبب انہی الفاظ کا عدمِ فہم بنا ہوا ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا میرے خیال میں عمومی نقصان سے بچاؤ کا واحد حل یہ ہے کہ دشمن سے جہاد منظم صورت میں کرنے کی سعی کرنی چاہیے تاکہ اسے سنبھلنے کا موقع ہی میسر نہ آسکے ۔ فاتحین قیصر و کسریٰ کے وارثوں پر واجب ہے کہ موضوع ہذا پر مل بیٹھ کر غوروخوض کریں تاکہ کل کو مثبت نتائج کی توقع کی جا سکے۔ سدا جانی و مالی بھاری نقصان اٹھاتے رہنا عقل و دانش کے منافی ہے۔ واللہ ولی التوفیق مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردینا چاہیے یا ذخیرہ کرلینا چاہیے؟ سوال۔ جنگ سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے اس کو لوگوں کودکھانے کی خاطر اپنے دفتر میں رکھا جا سکتا ہے ؟ (سائل محمد یحییٰ عزیز کوٹ رادھا کشن) (14اگست 1998ء) جواب۔ مالِ غنیمت مجاہدین میں فوراً تقسیم کردینا چاہیے۔ اس کا ذخیرہ کرنا درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس بات پر شاہد ہے۔ کانفرنسوں کا نام ’’غزوۂ ہند کانفرنس‘‘ رکھنا جائز ہے؟ سوال۔ آج کل ایک جماعت غزوۂ ہند کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ ہمارے مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ غزوۂ ہند کانفرنس