کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 438
دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔‘‘ اس حدیث کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سند کے لحاظ سے حضرت حسین کی روایت سے بہتر قرار دیا ہے اور حدیث ابی رافع کے لیے بہتر شاہد قرار دیا ہے۔ (دیکھیں: سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ،ج:1،ص:331) خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں ’’مصنف عبدالرزاق ‘‘ میں ہے: ( أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ : کَانَ إِذَا وُلِدَ لَہُ وَلَدٌ أَخَذَہُ کَمَا ہُوَ فِی خِرْقَتِہِ، فَأَذَّنَ فِی أُذُنِہِ الْیُمْنَی، وَأَقَامَ فِی الْیُسْرَی، وَسَمَّاہُ مَکَانَہُ)[1] ”عمر بن عبدالعزیز کے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کو اسی حالت میں لیتے تھے( یعنی وہ کپڑے میں لپیٹے ہوئے ہوتے ) اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اس وقت اس کا نام بھی رکھتے تھے۔‘‘ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: (رُوِی أَن عُمَرَ بْنَ عبْدِ الْعزِیزِ کَانَ یُؤذِّنُ فِی الیُمْنی ویُقِیمْ فِی الیُسْری إِذا وُلِد الصَّبِیُّ) [2] ”حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں یہ روایت ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے تھے۔‘‘ نومولود بچے یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے والے عمل کو مسنون اور صحیح قرار دینے والے محدثین کرام، علمائِ دین اور محققین کرام کے نام لکھے جاتے ہیں۔ 1۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کان میں اذان دینے والی حدیث کو ’’حسن‘‘ اور ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس پر عمل ہے۔(جامع الترمذی، باب العقیقۃ) 2۔ حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔(تحفۃ الاحوذی، ج:2، ص:363) 3۔ علامہ محمد عطاء اللہ حنیف نے اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔(تنقیح الرواۃ،ج:2،ص:230) 4۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے (نیل الاوطار،ج:3،ص: 230) 5۔ علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(حوالہ زاد المعاد) 6۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ عظیم آبادی) 7۔ علامہ شیخ الکل سید نذیر حسین نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(فتاویٰ نذیریہ)
[1] ۔ سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی العَقِیقَۃِ،رقم:1513